حالت احرام میں انتقال کرنے والے کا سر اور چہرہ چھپانا

حالت احرام میں فوت ہونے والے کا سر اور چہرہ چھپانے کا حکم

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا حالت احرام میں فوت ہونے والے کا سر نہیں ڈھانپا جائے گا؟ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک حدیث مبارکہ بھی وائرل ہو رہی ہے۔ اصل مسئلہ کیا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

فقہائے احناف کے نزدیک ہر مسلمان میت کا چہرہ اور سَر ڈھانپ کر ہی اسے کفن دیا جائے گا، اس معاملے میں احرام  و غیراحرام میں فوت ہونے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ تفصیل اس میں یہ ہے کہ شروع اسلام میں تمام مردوں (خواہ وہ غیرحالت احرام میں فوت ہوئے ہوں) کے چہرے کھلے رکھے جاتے تھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح ارشاد فرمادیا کہ:

"خمروا وجوه موتاكم، ولا تشبهوا باليهود"

ترجمہ: اپنے مُردوں کے چہروں کو ڈھانپ دو اور یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، جلد 11، صفحہ 183، حدیث 11436، مطبوعہ: قاھرہ)

 اس حدیث میں بیان کردہ حکم مطلق ہے، جس میں  مُحرم و غیر محرم کا کوئی فرق نہیں اوراس سے سب کے حق میں پہلے والاحکم منسوخ ہوگیا۔

اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”اذا مات الانسان انقطع عنہ عملہ الا من ثلاثۃ: الا  من صدقۃ جاریۃ، او علم ینتفع  بہ، او ولد صالح یدعو لہ“

 ترجمہ: جب کوئی انسان فوت ہوتا ہے تو اس کا عمل  اس سے منقطع ہو جاتا ہے مگر تین کام (ایسے ہیں جن کا ثواب منقطع نہیں ہوتا)  یعنی صدقہ جاریہ، ایسا علم جس سے نفع حاصل کیا جائے اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔ (صحیح مسلم، جلد3، صفحہ1255، حدیث 1631، مطبوعہ  داراحیاء التراث، بیروت)

اس  حدیث پاک میں بیان فرمایا گیا کہ سوائے تین اعمال کے بقیہ تمام اعمال موت کی وجہ سے ختم ہوجاتے ہیں اورجن تین اعمال کا استثنا فرمایا گیا، ان میں احرام شامل نہیں لہذا اس کے مطابق موت کی وجہ سے احرام بھی ختم ہوجاتاہے، پس جب احرام ختم ہوگیا تواب اس کے احکامات بھی ختم ہوجائیں گے۔ سنن ترمذی میں امام ترمذی علیہ الرحمۃ نے فرمایا:

" وقال بعض أهل العلم: إذا مات المحرم انقطع إحرامه ويصنع به كما يصنع بغير المحرم"

 ترجمہ: اور بعض علماء نے فرمایا: جب احرام باندھنے والا فوت ہوجاتاہے تو اس کا احرام ختم ہوجاتا ہے لہذا اس کے ساتھ وہی طریقہ اپنایا جائے گا جو غیرمحرم کے ساتھ اپنایاجاتاہے۔ (سنن ترمذی، ج03، ص277، مطبوعہ:مصر)

اس لیے عین ممکن ہے کہ سوال میں جس روایت کے متعلق بیان کیا گیا ہے، وہ منسوخ ہونے سے پہلے کی ہو، یا پھریہ بھی ممکن ہے کہ  اس حدیث میں بیان کردہ  حکم اس اعرابی کے ساتھ  خاص  ہو، بقیہ کے لیے وہی عمومی حکم ہوجو اوپر بیان ہوا کہ حالت احرام میں بھی فوت ہو تو اس کے ساتھ وہی طریقہ اپنایاجائے گا جو غیرمحرم کے ساتھ اپنایا جاتا ہے۔

فقہائے احناف کا مؤقف اور مستدل حدیث:

        بدائع الصنائع میں ہے

" المحرم يكفن، كما يكفن الحلال عندنا أي: يغطى رأسه ووجهه ويطيب ۔۔۔ولنا ما روي عن عطاء عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه «قال في المحرم يموت: ‌خمروهم ‌ولا ‌تشبهوهم ‌باليهود» وروي عن علي أنه قال في المحرم: إذا مات انقطع إحرامه ولأن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا مات ابن آدم انقطع عمله إلا من ثلاثة: ولد صالح يدعو له، وصدقة جارية وعلم علمه الناس ينتفعون به» والإحرام ليس من هذه الثلاثة"

 ترجمہ:ہمارے نزدیک محرم (یعنی احرام کی حالت میں فوت ہونے والے) کو ایسے ہی کفن دیا جائے گا جیسےحلال (یعنی غیر محرم) شخص کو دیا جاتا ہے، یعنی اس کا سر اور چہرہ ڈھانپا جائے گا اور اسے خوشبو بھی لگائی جائے گی۔ اور ہماری  دلیل وہ حدیث  ہے جو عطاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ نبی کریم   صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے محرم کے بارے میں فرمایا: انہیں (مرنے کے بعد) ڈھانپ دو اور یہود سے مشابہت اختیار نہ کرو۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے محرم کے بارے میں  فرمایا: جب وہ فوت ہو جاتا ہےتو اس کا احرام ختم ہو جاتا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب انسان فوت ہو جاتا ہے، تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: (۱) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے، (۲) صدقہ جاریہ، اور (۳) ایسا علم جسے اس نے لوگوں کو سکھایا اور  لوگ اس سے فائدہ  حاصل کریں۔ اور احرام ان تین چیزوں میں سے نہیں ہے (لہذا فوت ہونے سے دوسرے اعمال کی طرح احرام بھی ختم ہوجاتا ہے)۔(بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، جلد01، صفحہ 308، دار الكتب العلمية)

چہر ہ کھلا رکھنے کے متعلق حدیث کے جوابات:

         محرم کے چہرے اور سر کونہ ڈھانپنے  کا حکم منسوخ ہو چکا ہے، لہذا اس پر عمل نہیں ہوسکتا، التجرید للقدوری میں ہے

" والجواب: أن ترك تخمير الرأس كان مشروعا في بدء الإسلام في جميع الموتى اتباعا لشرع من تقدم حتى نسخ بقوله عليه الصلاة والسلام: (خمروهم، ولا تتشبهوا باليهود). فيجوز أن يكون هذا قبل النسخ، فمنع من تخميره ليس لأجل الإحرام، ومنعهم من تطييبه؛ لأنهم محرمون. وقوله: (فإنه يبعث يوم القيامة ملبيا) بيان حاله في الآخرة. "

 ترجمہ: اورجواب یہ ہے کہ سر کونہ چھپانا شروع اسلام میں تمام مُردوں کے معاملے میں جائز تھا، پہلی امتوں کی شریعت کی پیروی کے طور پر، یہاں تک کہ یہ حکم منسوخ ہو گیا نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے:" انہیں ڈھانپ دو اور یہود سے مشابہت اختیار نہ کرو۔" پس ممکن ہے کہ نبی  کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا (محرم کےسر کو نہ ڈھانپنے کا) حکم منسوخ ہونےسے پہلے کا ہو، اور اس میں سر نہ ڈھانپنے کی ممانعت احرام کی وجہ سے نہ ہو۔اورصحابہ کرام کومیت پرخوشبولگانے سے اس لیے منع  فرمایاکہ خود صحابہ کرام علیہم الرضوان حالت احرام میں تھے (اگروہ خوشبو لگاتے توان کو بھی لگ جاتی) ۔اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان کہ" پس وہ قیامت کے دن تلبیہ کہتے ہوئے اٹھایا جائے گا  "درحقیقت اس کی آخرت کی حالت کو بیان کرنا ہے۔ (التجرید للقدوری،جلد03،صفحہ1055، دار السلام ، القاهرة)

یا پھر حدیث میں بیان کردہ حکم صرف اسی اعرابی کے  ساتھ خاص  ہے، الکواکب للدراری میں ہے

"والحديث خاص في الإعرابي بعينه"

 ترجمہ: اور حدیث صرف اس معین اعرابی کے ساتھ خاص ہے۔ (الکواکب للدراری، جلد07، صفحہ 69، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے

"أن هذا العمل منقطع على أن ذلك الحديث محمول على محرم خاص جعله النبي صلى الله عليه وسلم مخصوصا به"

ترجمہ: یہ عمل (یعنی محرم کو بغیر سر ڈھانپے دفن کرنا) منقطع ہے، اس بنا پر کہ اس حدیث کو ایک خاص محرم  پر محمول کیا گیا ہے، جسے نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم کے ساتھ خاص کر دیا تھا۔ (بدائع الصنائع،کتاب الصلاۃ ،جلد 01،صفحہ 308، دار الكتب العلمية)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ  اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-4077

تاریخ اجراء:29ذوالحجۃالحرام1446ھ/26جون2025ء