دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص پاکستان سے عمرہ کرنے گیا، مناسکِ عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام سے نکل کر زیارات کرتے ہوئے طائف چلا گیا، پھر وہاں سے خانہ کعبہ آنے کے ارادے سے بغیر احرام واپس حرم آگیا، پھر وہ جعرانہ گیا اور وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کرلیا۔ اب اسے مسئلہ معلوم ہوا کہ میقات کے باہر سے جب حرم آنا ہوتا ہے، تو حالت احرام میں ہونا ضروری ہے، لیکن وہ شخص تو اب عمرہ بھی کرچکا ہے، تو کیا اس کا یہ عمرہ ادا ہو گیا؟ نیز بغیر احرام کے میقات سے حرم آنے کے سبب جو دم لازم آیا تھا کیا وہ ساقط ہوگیا یا نہیں ؟ رہنمائی فرمادیں۔ سائل: الطاف مدنی(اوکاڑہ)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں شخص ِ مذکور کے طائف (جو کہ میقات سے باہر ہے) سے بغیر احرام خانہ کعبہ آنے کے سبب احد النسکین(حج و عمرہ میں سے کوئی ایک ) اور دم لازم آیا، اس پر واجب تھا کہ واپس میقات پر جاتا اور وہاں سے احرام باندھ کر آتا، لیکن وہ واپس میقات نہیں گیا، بلکہ اس نے حل کے مقام "جعرانہ" سے ہی احرام باندھ کر عمرہ ادا کرلیا، لہذا اس کا احدالنسکین(عمرہ) اگرچہ ادا ہو گیا لیکن بغیر احرام میقات سے گزرنے کے سبب جو دم لازم آیا تھا وہ ساقط نہ ہوا، بلکہ عمرہ کرلینے سے وہ دم متعین ہو گیا، جسے ادا کرنا اس پر لازم ہے، نیز بغیر احرام میقات سے گزرنے کے سبب گنہگار بھی ہوا، لہذا وہ اس فعل سے سچی توبہ کرے۔
تفصیل یہ ہے کہ: جو شخص آفاق (یعنی میقات کے باہر) سے مکہ مکرمہ یا حدودِحرم میں آنے کا ارادہ رکھتا ہو، اس پر لازم ہوتا ہے کہ حج یا عمرہ کے احرام کے ساتھ داخل ہو۔اگر وہ بغیر احرام کے میقات سے گزر جائے تو اس پر احد النسکین(حج و عمرہ میں سے کسی ایک کی ادائیگی) اور بغیر احرام کے میقات سے گزرنے کا دم لازم آتا ہے، نیز اس پر واجب ہوتا ہے کہ وہ شخص واپس میقات پر چلا جائے اور حج یا عمرہ کا احرام باندھ کر آئے، اس طرح اس پر لازم آنے والا دم ساقط ہوجاتا ہے، اور اگر وہ واپس میقات نہ جائے اور میقات کے اندر سے ہی احرام باندھ کر حج یا عمرہ کرلے تو اس کا احدالنسکین اگرچہ ادا ہو جائے گا، لیکن بغیر احرام میقات سے گزرنے کے سبب جو دم لازم آیا تھا وہ ساقط نہیں ہوگا، بلکہ وہ دم متعین و مؤکد ہوجائے گا، کہ ایسی صورت میں طواف کے ایک چکر مکمل کرلینے پر ہی دم متعین ہوجانے پر فقہاء کرام کا اتفاق ہے۔
نوٹ: دَم سے مرادایک بکراہے، اِس میں نَر، مادہ، دُنبہ، بھیڑ، نیز گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ سب شامل ہیں، نیز اِس جانور کا حدودِ حرم میں ذبح ہونا شرط ہے، مزید یہ کہ اِس دم میں دئیے جانے والے جانور میں سے نہ توخود کچھ کھا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی غنی کو کھلا سکتے ہیں، بلکہ وہ صرف محتاجوں کا حق ہے۔
چنانچہ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط میں ہے:
”(و من دخل )ای: من اھل الآفاق( مکۃ )او الحرم (بغیر احرام فعلیہ احد النسکین) ای من الحج او العمرۃ، و کذا علیہ دم المجاوزۃ او العود“
ترجمہ: اور جو آفاقی(میقات سے باہروالا) مکہ پاک یا حرم میں بغیر احرام کے داخل ہو، اس پر احد النسکین یعنی حج یا عمرہ لازم ہو گیا اور ساتھ میں بلا احرام میقات سے گزرنے کی وجہ سے دم یا میقات پر لوٹ کر احرام باندھنا لازم ہو گیا۔ (المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط مع حاشیہ ارشادی الساری ، صفحہ98، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت )
بغیر احرام میقات گزرنے والے پر واجب ہوتا ہے کہ واپس میقات لوٹ آئے، چنانچہ لباب المناسک میں ہے:
”(من جاوز وقتہ غیر محرم ... فعلیہ العود)أی فیجب علیہ الرجوع(الی وقت )أی الی میقات من المواقیت“
ترجمہ: جو شخص احرام کی نیت کے بغیر میقات سے گزرجائے، تو اس پرکسی بھی میقات پر واپس لوٹنا واجب ہے۔ (لباب المناسک، فصل فی مجاوزۃ المیقات بغیر احرام، صفحہ31 ، مطبعۃ سعادۃ محمد پاشا)
اگر آفاقی میقات کے اندر سے احرام باندھ لے تو اس کے متعلق المسلک المتقسّط میں ہی ہے کہ:
”(فلو احرم آفاقی داخل الوقت ) ای فی داخل المیقات۔۔۔(فعلیھم العود الی وقت )ای میقات شرعی لھم لارتفاع الحرمۃ وسقوط الکفارۃ (وان لم یعودوا فعلیھم الدم)۔۔۔(فان عاد )ای المتجاوز (قبل شروعہ فی طواف )۔۔۔(سقط)ای الدم۔۔۔ملتقطا“
ترجمہ: اگر آفاقی نے میقات کے اندر سے احرام باندھا، تو ان پر لازم ہے کہ حرمت کو ختم کرنے اور کفارہ کو ساقط کرنے کے لیے جو شرعی میقات ہے، وہاں واپس جائیں۔ اور اگر وہ واپس نہیں گئے تو اُن پر دم لازم ہوجائے گا ۔پس اگر میقات کو بغیر احرام کے تجاوز کرکے (میقات کے اندر سے احرام باندھنے والا)طواف شروع کرنے سے پہلے، واپس میقات لوٹ جائے، تو بھی اس کا دم ساقط ہوجائے گا۔ (المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط مع حاشیہ ارشادی الساری ، صفحہ95، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت )
اگر آفاقی، میقات کے اندر سے احرام باندھ کر عمرہ یا حج کے طواف کا ایک چکر مکمل کرلے تو دم متعین ہوجاتا ہے، جیساکہ در الحکام شرح غرر الاحکام، المسلک المتقسط اور فتاوی شامی میں ہے:
واللفظ للاخر ”وعبارة الهداية: ولو عاد بعد ما ابتدأ الطواف واستلم الحجر لا يسقط عنه الدم بالاتفاق۔ فقال: واستلم الحجر بالواو، قال ابن الكمال في شرحها: إنما ذكره تنبيها على أن المعتبر في ذلك الشوط التام، .ومثله في العناية.وعليه فالمراد بالاستلام ما يكون بين الشوطين لا ما يكون في أول الطواف“
ترجمہ: اور ہدایہ کی عبارت ہے کہ (اگر آفاقی میقات کے اندر سے احرام باندھنے کے بعد)طواف شروع کرنے اور حجرے اسود کا استلام کرنے کے بعد میقات کی طرف واپس لوٹے تو، بالاتفاق اس کا دم ساقط نہیں ہوگا۔پس مصنف نے "استلم الحجر" واو عاطفہ کے ساتھ ذکر کیا، علامہ ابن کمال نے اس کی شرح میں کہا کہ : اس لیے عطف کے ساتھ ذکر کیا کہ اس بات پر تنبیہ ہوجائے کہ (دم متعین) ہونے میں معتبر ایک کامل چکر ہے۔ اسی کی مثل عنایہ میں ہے۔ اسی تفصیل کے مطابق استلام سے مراد وہ استلام ہے جو دو چکروں کے درمیان ہوتا ہے، نہ کہ وہ جو طواف کے شروع میں ہے۔ (رد المحتار علی در مختار، جلد02، صفحہ580، دار الفکر، بیروت )
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”میقات کے باہر سے جو شخص آیا اور بغیر احرام مکہ معظمہ کو گیا، تو اگرچہ نہ حج کا ارادہ ہو، نہ عمرہ کا مگر حج یا عمرہ واجب ہو گیا، پھر اگر میقات کو واپس نہ گیا، یہیں احرام باندھ لیا، تو دَم واجب ہے اور میقات کو واپس جاکر احرام باندھ کر آیا، تو دَم ساقط۔“ (بہارِ شریعت، جلد1، صفحہ1191، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
میقات سے احرام کے بغیر گزرنے کے گناہ سے توبہ لازم ہونے کے متعلق بہار شریعت میں ہے: ”مُحرم اگر بالقصد بلا عُذر جرم کرے تو کفارہ بھی واجب ہے اور گنہگار بھی ہوا، لہٰذا اس صورت میں توبہ واجب کہ محض کفارہ سے پاک نہ ہوگا جب تک توبہ نہ کرے اور اگر نادانستہ یا عذر سے ہے تو کفارہ کافی ہے۔ جرم میں کفارہ بہرحال لازم ہے، یا د سے ہو یا بھول چوک سے، اس کا جرم ہونا جانتا ہو یا معلوم نہ ہو، خوشی سے ہو یا مجبوراً، سوتے میں ہو یا بیداری میں، نشہ یا بے ہوشی میں یا ہوش میں، اُس نے اپنے آپ کیا ہو یا دوسرے نے اُس کے حکم سے کیا۔“ (بہارِ شریعت، جلد1، صفحہ1162، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
دَم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 19 21 ء ) لکھتے ہیں: ”اِس فصل میں جہاں دم کہیں گے اس سے مراد ایک بھیڑ یا بکری ہوگی اور بدنہ اونٹ یا گائے، یہ سب جانور اُن ہی شرائط کے ہوں جوقربانی میں ہوں۔ “(فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ757، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
دم کی ادائیگی حرم میں کرنا ضروری ہے، نیز اُس میں سے صرف محتاج کھاسکتے ہیں، چنانچہ بہار شریعت میں ہے: ” کفارہ کی قربانی یا قارِن ومتمتع کے شکرانہ کی، غیر حرم میں نہیں ہو سکتی، اگر غیر حرم میں کی تو ادا نہ ہوئی، نیز شکرانہ کی قربانی سے آپ کھائے، غنی کو کھلائے، مساکین کو دے اور کفارہ کی قربانی صرف محتاجوں کا حق ہے۔“ ملتقطاً۔ (بھارِ شریعت، جلد1، حصہ6، صفحہ1162، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: OKR- 0118
تاریخ اجراء: 23 ربیع الثانی 1447 ھ/17اکتوبر 2025 ء