عمرہ والے کیلئے پہلے مکہ جانا بہتر ہے یا مدینہ؟

عمرہ کے لیے آنے والے کو پہلے مکۃ المکرمہ جانا چاہیے یا مدینۃ المنورہ؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

عمرہ کے لیے آنے والے شخص کو پہلے مکۃالمکرمہ جانا چاہیے یا مدینۃ المنورہ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اگر عمرہ کے لیے آتے ہوئے مدینہ شریف راستے میں آئے تو پھر پہلے مدینہ شریف حاضری دینا ہی افضل ہے، البتہ اگر مدینہ شریف راستہ میں نہیں آتا تو پھر عمرہ کرنے والے کو اختیار ہے، چاہے مدینہ شریف حاضری دے کر عمرہ کرنے جائے یا عمرہ کی ادائیگی کے بعد مدینہ شریف حاضری دے۔

نوٹ: عمرہ یا حج کے لیے جانے والے کو مدینہ پاک میں ضرور حاضری دینی چاہیے، کیونکہ عمرہ یا حج کے بعد مدینہ پاک حاضری نہ دینے کی احادیث مبارکہ میں مذمت بیان کی گئی ہے۔ نیز علمائے كرام نے مدینہ پاک کی حاضری کو قریب از واجب شمار فرمایا ہے۔

در مختار میں ہے

و يبدأ بالحج لو فرضا و يخير لو نفلا ما لم يمر به فيبدأ بزيارته لا محالة

ترجمہ: اگر حج فرض ہو تو حج سے ابتدا کرے اور اگر نفل ہو تو اسے اختیار ہے، جبکہ مدینہ شریف سے گزر نہ ہو (اوراگر مدینہ شریف سے گزر ہو تو) تو پھر یقیناً پہلےنبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کرے۔

اس کے تحت رد المحتار اور حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے

(و اللفظ للاول) (قوله و يبدأ إلخ)۔۔۔ أنه إذا كان الحج فرضا فالأحسن للحاج أن يبدأ بالحج ثم يثني بالزيارة، و إن بدأ بالزيارة جاز۔۔۔ (قوله ما لم يمر به) أي بالقبر المكرم أي ببلده، فإن مر بالمدينة كأهل الشام بدأ بالزيارة لا محالة لأن تركها مع قربها يعد من القساوة و الشقاوة

ترجمہ: جب فرض حج ہو تو حج کرنے والے کے لیے بہتر ہے کہ حج سے شروع کرے، پھر دوبارہ مدینہ پاک کی زیارت کے لیے حاضر ہو اور اگر مدینہ پاک کی زیارت سے ابتدا کرے تو جائز ہے۔ اور مصنف کا قول کہ اگر قبر مکرم یعنی حضور علیہ السلام کے شہر سے گزر نہ ہو، پس اگر مدینہ سے گزر ہو، جیسا کہ شام والے تو ضروری طور پر مدینہ پاک سے ہی ابتدا کریں ، کیونکہ مدینہ شریف کے راستے میں ہونے کے باوجود اس کی زیارت کو ترک کرنا سخت دلی اور شقاوت سے شمار کیا گیا ہے۔(رد المحتار، کتاب الحج، جلد 2، صفحہ 627، مطبوعہ: بیروت)

عمرہ یا حج کرنے والا پہلے مکہ شریف جائے یا مدینہ شریف ، اس کے متعلق امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: ”علماء مختلف ہیں کہ پہلے حج کرے یا زیارت، لباب میں ہے: "حج نفل میں مختار ہے اور فرض ہو تو پہلے حج، مگر مدینہ طیبہ راہ میں آئے تو تقدیم زیارت لازم انتھی"۔ یعنی بے زیارت گزر جانا گستاخی، اور فقیر کو علامہ سبکی کا یہ ارشاد بہت بھایا پہلے حج کرے تاکہ پاک کی زیارت پاک ہو کر ملے۔“(فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ798، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

مزید ایک مقام پر امام اہلسنت، امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: ”علمائے کرام نے دونوں صورتیں لکھی ہیں چاہے پہلے سرکارِ اعظم میں حاضر ہو اُس کے بعد حج کرے یہ ایسا ہوگا جیسے صبح کے فرضوں سے سنتیں مقدم ہیں اور حاضری بارگاہِ مقدس اس کے لیے قبول حج کا سامان فرمادے گی ان شاء اللہ الکریم ثم رسولہ الرؤف الرحیم علیہ و علیٰ آلہ اکرم الصّلوٰۃ و التسلیم، اور چاہے تو حج کے بعد حاضر ہو یہ ایسا ہوگا جیسے مغرب کے فرضوں کے بعد سنّتیں۔ حج اگر مبرور ہے اُسے گناہوں سے پاک کرکے اس قابل کردے گا کہ زیارت قبرِ انور کرے۔۔۔ یہ سب اس صورت میں ہے کہ مکہ معظمہ کو جاتے میں مدینہ طیبہ راستہ میں نہ پڑے اور اگر ایسا ہے جیسا شام سے آنے والوں کے لیے تو پہلے حاضری دربارِ انور ضروری ہے، خلافِ ادب ہے کہ بے حاضر ہوئے حج کو چلا جائے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 673، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

مدینہ شریف حاضری نہ دینے کے متعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

من حج البیت و لم یزرنی فقد جفانی

 ترجمہ: جو حج کرے اور میری زیارت کو حاضر نہ ہو بیشک اس نے مجھ سے جفا کی۔(کنز العمال، جلد 5، صفحہ 135، حدیث: 12369، مؤسسۃ الرسالۃ)

نبی پا ک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کا حکم بیان کرتے ہوئے امام اہلسنت، امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: ”زیارت سراپا طہارت حضور پرنور سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بالقطع والیقین باجماع مسلمین افضل قربات واعظمِ حسنات سے ہے، جس کی فضیلت وخوبی کا انکار نہ کرے گا مگر گمراہ بد دین یا کوئی سخت جاہل، سفیہ غافل، سخرہ شیاطین و العیاذ باللہ رب العالمین۔ اس قدر پر توا جماعِ قطعی قائم۔۔۔ ہماری کتبِ مذہب میں مناسک فارسی وطبرابلسی وکرمانی واختیار شرح مختار و فتاویٰ ظہیریہ و فتح القدیر و خزانۃ المفتین و منسک متوسط و مسلک متقسط و منح الغفارو  مراقی الفلاح و حاشیہ طحطاویہ علی المراقی و مجمع الانہر و سنن الہدیٰ و عالمگیری وغیرہ میں اس کے قریب واجب ہونے کی تصریح کی بلکہ خود صاحبِ مذہب سیدنا امام اعظم سے اس پر نص منقول، جذب القلوب میں ہے: زیارت آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نزد ابی حنیفہ از افضل مندوبات واوکد مستحبات است قریب بہ درجہ واجبات۔ زیارتِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل مندوبات واعلیٰ مستحبات سے ہے درجہ واجبات کے قریب۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 718، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد فرحان افضل عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4396

تاریخ اجراء: 11 جمادی الاولٰی 1447ھ / 03 نومبر 2025ء