طواف کے نفل پڑھے بغیر واپس آگئے تو کیا حکم ہے؟

طواف کے نفل پڑھے بغیر گھر آگیا تو اب کیا حکم ہے ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے عمرہ کیا اس کے بعد دو رکعت طواف کی پڑھنا بھول گیا اور اب وطن واپس آچکا ہے تو اب اسے کیا کرنا ہوگا ؟کیا یہ شخص گنہگار ہوا اور اس پر دم اور کفارہ لازم ہے ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

طواف، خواہ فرض ہو یا نفل، اس کے بعد دو رکعت پڑھنا واجب ہے اور اگر وقت مکروہ نہ ہو تو فوراً پڑھنا سنت ہے، جبکہ مقامِ ابراہیم کے قریب پڑھنا مستحب ہے۔ لیکن یہ وجوب کسی خاص زمانے یا جگہ کے ساتھ مخصوص نہیں، جب تک انہیں نہ پڑھا جائے یہ ذمہ پر لازم رہتی ہیں۔ اگر کسی نے طواف کے فوراً بعد نہ پڑھیں یا حرم میں ادا نہ کیں، تو عمر بھر میں جب بھی اور جہاں بھی پڑھے گا، وہ ادا ہی شمار ہوگی، قضا نہیں۔ البتہ ان میں تاخیر کرنا یا حرم سے باہر پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہے، لیکن اس کی وجہ سے نہ گناہ ہوگا، نہ ہی دم یا کفارہ لازم آئے گا۔

لہٰذا پوچھی گئی صورت میں زید اب اپنے وطن میں ہی یہ دو رکعتیں ادا کرلے، یہ ادا شمار ہوں گی، اور اس وجہ سے زید پر نہ دم لازم ہوگا اور نہ ہی وہ گنہگار ہوگا۔

نمازِ طواف واجب ہے، لیکن یہ وجوب کسی زمانے یا جگہ کے ساتھ خاص نہیں، وطن لوٹ کر پڑھنا بھی کراہت تنزیہی کے ساتھ جائز ہے جیسا کہ بحر الرائق کی شرح منحۃ الخالق میں ہے:

(و أما صلاة ركعتي الطواف بعد كل أسبوع فواجبة على الصحيح) أي بعد كل طواف فرضا كان أو واجبا أو سنة أو نفلا و لا يختص جوازها بزمان و لا بمكان و لا تفوت و لو تركها لم تجبر بدم و لو صلاها خارج الحرم و لو بعد الرجوع إلى وطنه جاز و يكره

 ترجمہ: اور ہر سات چکر طواف کے بعد طواف کی دو رکعتیں صحیح قول کے مطابق واجب ہیں، یعنی ہر طواف کے بعد چاہے وہ فرض ہو یا واجب، سنت ہو یا نفل، اور اس کا جواز کسی زمانے یا جگہ کے ساتھ خاص نہیں ہے اور یہ نماز فوت نہیں ہوتی(یعنی ذمہ پر لازم رہتی ہے) اور اس کو ترک کردیا جائے تو اس کی تلافی دم سے نہیں ہوتی اور اگر اس نماز کو کسی نے حرم سے باہر ادا کیا اگرچہ اپنے وطن لوٹنے کے بعد تو یہ جائز ہےلیکن مکروہ ہے۔ (البحر الرائق مع منحۃ الخالق، جلد02، صفحہ 356، دار الكتاب الإسلامي)

 یونہی اس بارے میں کلام کرتے ہوئے علامہ شیخ سندھی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 993ھ/1585ء) لکھتے ہیں:

’’ وهی واجبة بعد کل طواف فرضا كان او واجبا او سنة او نفلا ولا تختص بزمان ولا مكان ولا تفوت فلو تركها لم تجبر بدم۔۔۔ والسنة الموالاة بينهما وبين الطواف ويستحب مؤكدا اداؤهاخلف المقام وافضل الاماكن لادائها خلف المقام۔۔۔ ثم الحرم ثم لا فضیلة بعد بل الاساءۃ ‘‘

ترجمہ: اور (نمازِ طواف) ہر طواف کے بعد واجب ہے چاہے (وہ طواف) فرض ہو یا واجب یا سنت یا نفل اوروہ کسی زمانے یا مکان کے ساتھ خاص نہیں ہے اور وہ فوت نہیں ہوتی، پس اگر (کسی نے) نماز کو ترک کردیا، تواُسے دم دینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔۔۔ اور اِس کا اور طواف کا پے در پے ہونا (اِسے طواف کے فوراً بعد ادا کرنا) سنت ہے اور اسے مقام ِ ابراہیم کے پیچھے ادا کرنا تاکیداً مستحب ہے اور اس نماز کو ادا کرنے کی افضل جگہ مقامِ ابراہیم کے پیچھے ہے۔۔۔ پھر حرم پھر حرم کے بعد (یعنی حرم سے باہر انہیں ادا کرنے کی) کوئی فضیلت نہیں بلکہ اساءت ہے۔ ( المسلک المتقسط شرح المنسک المتوسط، ، صفحہ71، 72، مطبعۃ الترقی الماجدیۃ، مکۃ المکرمۃ)

نمازِ طواف کو چھوڑنے سے دم لازم نہ ہونے کی وجہ کے بارے میں شرح لباب المناسک میں ہے:

” وحكم الواجبات أنه يلزمه دم مع تركها، إلا ركعتي الطواف، انتهى ووجهه أنه واجب مستقل ليس له تعلق بواجبات الحج “

ترجمہ: واجبات کا حکم یہ ہے کہ طواف کی دو رکعتوں کے واجب کے علاوہ واجب ترک کرنے سے دم لازم آتا ہے، نماز ِطواف کو چھوڑنے میں دم لازم نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک مستقل واجب ہے، اس کا حج کے واجبات کے ساتھ تعلق نہیں۔ (ارشاد الساری الی مناسک الملا علی قاری ، صفحہ219، مطبوعہ مکہ مکرمہ )

اگر یہ رکعات طواف کے فوراً بعد نہ پڑھیں، تو عمر بھر میں جب بھی پڑھے ادا ہی ہے، چنانچہ صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’سنت یہ ہے کہ وقتِ کراہت نہ ہو تو طواف کے بعد فوراً نماز پڑھے، بیچ میں فاصلہ نہ ہو اور اگر نہ پڑھی تو عمر بھر میں جب پڑھے گا، ادا ہی ہے قضا نہیں مگر بُرا کیا کہ سنت فوت ہوئی۔ ‘‘(بھار شریعت، جلد1، حصہ6، صفحہ1103، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-9525

تاریخ اجراء: 30    ربیع الاول 1447ھ/23ستمبر 2025ء