یومِ عرفہ کے روزے کی فضیلت

یومِ عرفہ کے روزے کی کیا فضیلت ہے؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

یومِ عرفہ  کا  نفلی روزہ رکھنا کیسا ؟ اس کی کیافضیلت ہے ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

یومِ عرفہ نو ذو الحجہ کا دوسرا نام ہے، اس دن کا روزہ رکھنا مستحب ہے کہ احادیث مبارکہ میں اس دن روزہ رکھنے کی فضیلت  آئی  ہے۔ ایک حدیث  پاک میں ہے کہ  نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں، مَیں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف فرمادے گا۔"

البتہ!  میدانِ عرفات میں حاجیوں کے لئے اس دن کا روزہ رکھنا مکروہ یعنی ناپسندیدہ ہے، کیونکہ اس دن روزہ رکھنے سے ان کو عبادت، دعا، ذکر اور وقوفِ عرفہ میں خلل آسکتا ہے کہ روزہ رکھنے سے کمزوری لاحق ہو سکتی ہے۔ ہاں اگر کسی کو میدان عرفات میں روزہ رکھنے سے  کمزروی نہ ہو اور وہ روزہ  رکھنے کے باوجود تمام معاملات اچھے طریقے سے بجا لائے گا تو وہ وہاں پربھی روزہ رکھ سکتا ہے۔

عرفہ یعنی نو ذو الحجہ کے روزے کی فضیلت سے متعلق سنن ابن ماجہ کی حدیث پاک ہے

"عن أبي قتادة، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: صيام يوم عرفة، إني أحتسب على اللہ أن يكفر السنة التي قبله، والتي بعده"

 ترجمہ: حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ  وسلم نے  ارشاد فرمایا:عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں، مَیں اللہ تعالی  سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اسے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بنا دے گا ۔(سنن ابن ماجہ ،جلد1،صفحہ551، رقم الحدیث:1730، دار إحياء الكتب العربية)

نیز السنن الکبری للبیہقی کی روایت ہے

"عن أبي قتادة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: صوم عرفة كفارة سنتين سنة قبله وسنة بعده، وصوم عاشوراء كفارة سنة"

 ترجمہ:حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یومِ عرفہ کا روزہ دو سال یعنی ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہے، اور یومِ عاشوراء کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ (السنن الکبری للبیھقی، جلد 04، صفحہ 469، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

در مختار میں ہے

"والمندوب كأيام البيض من كل شهر۔۔۔ وعرفة ولو لحاج لم يضعفه"

 ترجمہ: اور مستحب روزے جیسے ہر مہینے کے ایام بیض (یعنی 13، 14، 15 تاریخ) کا روزہ۔۔۔ اور یومِ عرفہ کا روزہ، حتیٰ کہ حاجی کے لیے بھی، اگر روزہ رکھنا اُسے کمزور نہ کرے۔

اس کے تحت رد المحتار میں ہے

"أي إن كان لا يضعفه عن الوقوف بعرفات ولا يخل بالدعوات محيط، فلو أضعفه كره"

 ترجمہ: یعنی اگر روزہ اُسے وقوف عرفہ سے کمزور نہ کرے اور نہ ہی دعاؤں میں خلل ڈالے جیسا کہ محیط میں ہے، ( تو اس کے لیے مستحب ہے)، اور اگر روزہ اُسے کمزور کرے، تو مکروہ ہوگا۔ (در المختار مع رد المحتار، جلد 02، صفحہ 375، دار الفکر بیروت)

مراٰۃ المناجیح میں ہے "(ذو الحجہ کی)نویں تاریخ کو بھی عرفہ کہتے ہیں ۔" (مراۃ المناجیح، جلد4، صفحہ139، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ  اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-4078

تاریخ اجراء:29ذوالحجۃالحرام1446ھ/26جون2025ء