وہاب علی نام رکھنا

وہاب علی نام رکھنا کیسا؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

بچے کا نام "وہاب علی"   رکھنا کیسا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

" وہاب علی"نام رکھ سکتے ہیں ۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ :

وہاب  کا معنی  ہے:" بہت ہبہ (گفٹ)کرنے والا "جبکہ علی مشہور صحابی رسول (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم و رضی اللہ تعالی عنہ) کا  نام ہے۔ اردو میں  وہاب علی کا معنی موصوف صفت کے اعتبار سے  ہوگا یعنی   ایسا علی جو بہت ہبہ کرنے  والا ہو، جیسا کہ اردو میں امیر حمزہ کا معنی  یہ ہوتا ہے کہ ایسا حمزہ جو سردار و حاکم ہو۔ لہذا اس اعتبار سے وہاب علی نام رکھنا  جائز ہے، تاہم! بہتر یہ ہے کہ  اصل نام  صرف  محمد رکھا جائے اور پکارنے کے لیے صرف "وہاب علی" بلکہ اس سے بہترہے کہ صرف "علی" رکھ لیا جائے کہ حدیث پاک میں اچھوں کے نام پر نام رکھنے کی ترغیب بیان ہوئی ہے ،اور اس سے امید ہے کہ ان کی برکت بچے کے شامل حال ہوگی۔

القاموس الوحید میں ہے "وھْبا، وھَبا، ھبۃ: کسی کو بلا عوض کوئی چیز دینا، بخشنا، ہبہ کرنا۔"(القاموس الوحید، صفحہ 1902، مطبوعہ: لاہور)

المنجد میں ہے"الوھاب والوھابۃ والوھوب: بہت ہبہ کرنے والا۔"(المنجد، صفحہ 1000، مطبوعہ: لاہور)

کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

” من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا  لي وتبركا باسمي كان هو ومولوده في الجنة“

ترجمہ:جس کے ہاں بیٹا  پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جلد 16، صفحہ 422، حدیث 45223، مؤسسة الرسالة، بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے ”بہتر یہ ہے کہ صرف محمد یا احمد نام رکھے اس کے ساتھ جان وغیرہ اور کوئی لفظ نہ ملائے کہ فضائل تنہا انھیں اسمائے مبارَکہ کے وارِد ہوئے ہیں۔“ (فتاوی رضویہ،جلد24،صفحہ 691،رضا فاؤنڈیشن لاھور)

الفردوس بماثور الخطاب میں ہے

”تسموا بخياركم “

 ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔(الفردوس بماثور الخطاب، جلد2، صفحہ58، حدیث2328، دار الكتب العلمية ، بيروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: "انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔"(بہار شریعت ، جلد3،حصہ 15، صفحہ356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ  اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-4075

تاریخ اجراء:29ذوالحجۃالحرام1446ھ/26جون2025ء