
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا قرآن کہتا ہے کہ جب لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مشورہ کرنے آتے تھے تو پہلے کچھ (تحفہ یا صدقہ) دیتے تھے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں !قرآن شریف میں یہ حکم اللہ رب العزت نے اہل ایمان کو دیا تھا، لیکن پھر منسوخ فرمادیا اور بغیر صدقہ دئیے مشورہ کرنے کی اجازت عطافرمادی ۔
قرآن پاک میں ہے
(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ)
ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو جب تم رسول سے کوئی بات آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو یہ تمہارے لیے بہتر اور بہت ستھرا ہے پھر اگر تمہیں مقدور نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پارہ 28،سورۃ المجادلۃ،آیت12)
اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:
” {یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ :
اے ایمان والو! جب تم رسول سے تنہائی میں کوئی بات عرض کرنا چاہو۔} ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! جب تم رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے تنہائی میں کوئی بات عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو کہ اس میں بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہونے کی تعظیم اور فقراء کا نفع ہے، یہ عرض کرنے سے پہلے صدقہ کرنا تمہارے لیے بہت بہتر ہے کیونکہ اس میں اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت ہے اور یہ تمہیں خطاؤں سے پاک کرنے والا ہے ،پھر اگر تم اس پر قدرت نہ پاؤ تو اللّٰہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔“
شانِ نزول: سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں جب مالداروں نے عرض و معروض کا سلسلہ دراز کیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ غریب صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو اپنی عرض پیش کرنے کا موقع کم ملنے لگا تو عرض پیش کرنے والوں کو عرض پیش کرنے سے پہلے صدقہ دینے کا حکم دیا گیا ، بعض روایتوں کے مطابق اس حکم پر حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے عمل کیا اور 1دینار صدقہ کرکے 10 مسائل دریافت کئے۔۔۔۔۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے علاوہ اور کسی کو اس حکم پر عمل کرنے کا وقت نہیں ملا۔" (صراط الجنان،ج 10،ص 49،مکتبۃ المدینہ)
لیکن پھر یہ آیت منسوخ ہوگئی جیسا کہ تفسیر بحر العلوم از علامہ ابو لیث سمرقندی میں ہے:
”وقال مجاهد: نهوا عن مناجاة النبي صلی اللہ علیہ وسلم حتى يتصدقوا، فلم يناجه إلا علي بن أبي طالب- رضي الله عنه قدم دينارا تصدق به وكلم النبي صلی اللہ علیہ وسلم في عشر كلمات، ثم أنزلت الرخصة بالآية التي بعدها وهو قوله: أأشفقتم يعني: أبخلتم يا أهل الميسرة أن تقدموا بين يدي نجواكم صدقات؟ فلو فعلتم كان خيرا لكم، فإذ لم تفعلوا وتكرهوا ذلك، فإن الله تعالى غني عن صدقاتكم. وتاب الله عليكم يعني: تجاوز عنكم. فأقيموا الصلاة وآتوا الزكاة، فنسخت الزكاة الصدقة التي عند المناجاة. وأطيعوا الله ورسوله فيما يأمركم به وينهاكم عنه. والله خبير بما تعملون من الخير والشر والتصدق والنجوى“
ترجمہ :مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا: صحابہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی (مناجاة) کرنے سے روک دیا گیا تھا یہاں تک کہ وہ صدقہ دیں، سو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی نہیں کی، انہوں نے ایک دینار صدقہ میں پیش کیا اور دس مسائل سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی۔ پھر اس کے بعد والی آیت میں رخصت نازل ہوئی، یعنی اللہ کا فرمان: " کیا تم اس سے ڈرے کہ تم اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقے دو؟" اگر تم نے ایسا کیا ہوتا تو تمہارے لیے بہتر تھا۔ پھر اگر تم نے اسے ناپسند کرتے ہوئے نہ کیا تو اللہ تمہارے صدقات سے غنی ہے،اور اللہ نے تمہیں معاف کر دیا یعنی تمہاری خطاؤں سے تجاوز فرمایا،تو (اب) نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو۔پس زکوٰۃ نے سرگوشی سے پہلے صدقہ دینے کی شرط منسوخ کر دی ۔اور اللہ و اس کے رسول کی اطاعت کرو اس معاملے میں جس میں وہ تمہیں حکم دیں اور جس سے منع کریں،اور اللہ تمہارے اعمال (خیر و شر، صدقہ اور سرگوشی) سے بخوبی واقف ہے۔(التفسیر بحر العلوم للسمرقندی،ج3،ص418،طبع مصر)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3809
تاریخ اجراء:10ذوالقعدۃ الحرام1446ھ/08مئی2025ء