Kya ilm e Deen Seekhne mein Mashghool Logon ko Salam Karna Gunah Hai?

جو لوگ علمِ دین میں مشغول ہو ں، کیا ان کو سلام کرناگناہ ہے؟

مجیب:مفتی   محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9187

تاریخ اجراء:24جمادی  الاولیٰ1446ھ/27 نومبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ علم دین پڑھنے والوں کو سلام کرنا، مکروہ تحریمی ہے   یا تنزیہی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   علم دین کی بڑی  فضیلت اور  اہمیت ہے،اس کے حصول کی اہمیت کو مد نظر رکھتےہوئے ،شریعت مطہرہ نے حدیث سننے ،سنانے اور  علم دین کے حصول میں مشغول افراد کو سلام کرنےسے منع کرتے ہوئے اس موقع پر سلام کرنے کو مکروہ تحریمی، ناجائز اور گناہ قرار دیا ہے، حتی کہ  اگر   کوئی اس موقع پر سلام کردے، تو سننے والوں پر سلام کا جواب دینا بھی واجب نہیں، کیونکہ یہاں سلام کرنے کا محل نہیں اور سلام کے ذریعے ان کی  علم دین سے توجہ بٹے گی، لہذا انہیں سلام کرنے کی اجازت نہیں۔

   جن مقامات پر سلام کرنا منع ہے، ان کے متعلق علامہ  علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات: 1088ھ/1677ء) چند  اشعار  نقل کرتے ہیں:

   مصل وتال ذاكر ومحدث                                                                                                                                                                     خطيب ومن يصغي إليهم ويسمع

   مكرر فقه جالس لقضائه                                                                                                                                                                                                       ومن بحثوا فی الفقه دعهم لينفعوا

   ترجمہ :نماز پڑھنے والے، تلاوت کرنے والے، ذکر اللہ کرنے والے، حدیث بیان کرنے والے، خطبہ دینے والے، اس کی طرف متوجہ ہو کر خطبہ سننے والے، فقہ کا تکرار کرنے والے، فیصلہ کرنے کے لیے بیٹھنے والے قاضی  اور فقہ   میں بحث و مباحثہ کرنے والے پر، تیرا  سلام کرنا، مکروہ ہے، ان کو چھوڑ دو ،تاکہ یہ نفع حاصل کریں۔(درمختار مع ردالمحتار، جلد2، صفحہ451، مطبوعہ کوئٹہ)

   مذکورہ بالا مقامات پر سلام کرنا، مکروہ تحریمی ہے، جیساکہ”سلامک مکروہ“کے تحت علامہ اَحمد طَحْطاوی  حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1231ھ/1815ء) لکھتے ہیں: ’’ظاھرہ التحریم“ترجمہ: ظاہر یہی ہے کہ یہاں مکروہ تحریمی مراد   ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ  328، مطبوعہ  دار الکتب العلمیہ)

   مذکورہ بالا مقامات پر سلام کرنا  گناہ  ہے، جیساکہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات :1252ھ/1836ء)   علامہ طحطاوی کی مذکورہ عبارت نقل  کرنے کے بعد لکھتے ہیں:”و سیجیء التصریح بالاثم فی بعضھا۔۔۔وحاصلها: أنه يأثم بالسلام على المشغولين بالخطبة أو الصلاة أو قراءة القرآن أو مذاكرة العلم أو الآذان أو الإقامة“ ترجمہ:عنقریب بعض صورتوں میں سلام کرنے کے گناہ ہونے کی صراحت بیان کی جائے گی۔۔۔۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ خطبہ، نماز، تلاوت ِقرآن، مذاکرہ علم، یا اذان و اقامت کہنے میں مشغول افراد کو سلام کرنے والا گنہگار ہو گا۔(ردالمحتار علی  الدرالمختار ، جلد 2، صفحہ451-453 ، مطبوعہ  کوئٹہ)

   اس مسئلےکی تائید فتاوی تاتارخانیہ کی درج ذیل عبارت سے بھی ہوتی ہے :یکرہ السلام عند قراءۃ القرآن جھراوکذلک عند مذاکرۃ العلم ولایسلم علی قوم و ھم فی مذاکرۃ العلم او احدھم و ھم یسمعون وان سلم  فھو آثمترجمہ:تلاوت قرآن کرنے والے کو بلند آواز سے سلام کرنا، مکروہ ہے، اور یہی حکم علم دین کے مذاکرے میں مشغول افراد کو سلام کرنے کا ہے۔ ایسی قوم پر سلام نہ کیا جائے، جو علم دین میں مشغول ہو یا ان میں سے کوئی ایک علم کی بات کر رہا ہو اور باقی سن رہے ہوں۔ اگر کسی نے ان کو سلام کیا، تو وہ گنہگار ہوگا۔(فتاویٰ تاتارخانیہ، جلد18، صفحہ 82،مطبوعہ کوئٹہ)

   مذاکرہ علم میں مشغول افراد کو اگر کسی نے سلام کیا، تو ان پر جواب دینا واجب نہیں، جیساکہ رد المحتار میں ہے: ”وإن سلم في حال التلاوة فالمختار أنه يجب الرد بخلاف حال الخطبة والأذان وتكرار الفقه اهـ وإن سلم فهو آثم تتارخانية و فیھا والصحیح ان لایرد  فی ھذہ المواضعترجمہ:اگر کسی نے تلاوت قرآن کرنے والے کو سلام کیا، تو مختار قول کے مطابق ان پر جواب دینا واجب ہے(یہ مفتیٰ بہ نہیں ہے،بلکہ  مفتی بہ یہ ہے کہ جواب دینا واجب نہیں، اسے جواب دینے کا   اختیار ہے)، برخلاف حالتِ خطبہ، اذان اور فقہ کے تکرار میں مشغول افراد کو سلام کے جواب میں(کہ ان پر جواب دینا واجب نہیں)۔ اگر کسی نے انہیں سلام کیا، توسلام کرنے والا گنہگار ہوگا، جیسا کہ تتارخانیہ میں ہے۔ اسی میں یہ بھی ہے کہ اس مسئلے میں صحیح یہی ہے کہ ان مقامات پر جواب دینا واجب نہیں۔(رد المحتار علی الدرالمختار  ،جلد 9،صفحہ 686،مطبوعہ کوئٹہ)

   علم میں مشغول افراد کو سلام کرنا، سلام کا محل نہیں ،جیساکہ بحر الرائق  میں ہے:”ثم اعلم أنه يكره السلام على المصلي والقارئ والجالس للقضاء أو البحث في الفقه  ولو سلم عليهم لا يجب عليهم الرد لأنه في غير محلهترجمہ :یہ بات جان لو !نماز پڑھنے والے، تلاوت کرنے والے، فیصلہ کے لیے بیٹھنے والے قاضی  اور فقہ   میں بحث و مباحثہ کرنے والے کو سلام کرنا، مکروہ ہے، اگر کسی نے انہیں سلام کر دیا، تو ان پر سلام کا جواب دینا واجب نہیں، کیونکہ یہ  سلام کرنے کا محل نہیں۔(بحر الرائق شرح کنز الدقائق ،جلد2،صفحه 10،مطبوعہ دار الكتاب الإسلامي)

   علم میں مشغول افراد کو سلام کرنے سے ان کی توجہ مبذول ہو گی  ،جیساکہ  علامہ عابد سندی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :”الرابع :عند مذاکرۃ  العلم و الباقون یستمعون یکرہ السلام  و یاثم  المسلم ۔۔۔۔۔انما یکرہ لانہ یقطع خاطرھم ترجمہ:(سلام کے ممنوعہ مقامات میں سے) چوتھی جگہ یہ ہے کہ جب   مذاکرہ علم ہو اور لوگ سماعت کر رہے ہو ں،تو ان کو سلام کرنا، مکروہ ہے اور سلام کرنے والا گنہگار ہوگا۔۔۔ یہاں کراہت  کی وجہ یہ  ہے کہ سلام کرنے والا، ان کی توجہ  علم دین سے  ہٹانے  والا ہے۔(طوالع الانوار لشرح  الدر المختار، جلد 2،حصہ1 ، صفحہ  126، مخطوطہ)

   اوردرج بالا دونوں علتوں کو ”الاختيار لتعليل المختار“ میں یوں بیان کیا گیا ہے:”ولا ينبغي أن يسلم على من يقرأ القرآن لأنه يشغله عن قراءته۔۔۔وعلى هذا من جلس يفقه تلامذته ويقرئهم القرآن فدخل عليه داخل فسلم وسعه أن لا يرد، لأنه إنما جلس للتعليم لا لرد السلام“ ترجمہ: جو شخص تلاوت قرآن میں مشغول ہو، اسے سلام نہ کرے، کیونکہ یہاں سلام کرنا،  اس کی توجہ کو تلاوت قرآن  کرنے  سے پھیرنا ہے۔۔۔ اسی کے پیش نظر حکم ہے کہ فقہ کے حصول  اور تلاوت قرآن میں مصروف  شخص کے پاس آنے والے نے اگر سلام کر دیا، تو ان  کے لیے  جواب نہ دینا جائز ہے، کیونکہ یہ تعلیم کے لیے بیٹھے ہیں، سلام کا جواب دینے کے لیے نہیں۔(الاختيار لتعليل المختار، جلد4،صفحه165، مطبعة الحلبي، قاهرہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم