کیا میت پر رونے سے اسے عذاب ہوتا ہے؟

میت پر رونے والوں سے میت کوعذاب ہونے کی وضاحت

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ایک پوسٹ میں یہ حدیث لکھی ہے: ”میت کو زندہ کے رونے سے عذاب دیا جاتا ہے۔“ کیا یہ حدیث درست ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جی ہاں! یہ حدیث کتبِ حدیث میں موجود ہے۔ چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

”إن الميت ليعذب ببكاء الحي“

ترجمہ: زندہ کے رونے کی وجہ سے میت کوعذاب دیا جاتا ہے۔(صحیح مسلم، جلد 3، صفحہ 41، رقم الحدیث: 2145، مطبوعہ: ترکیا)

اس کا ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر عذاب سے مراد عذاب ہی ہو، تو یہ وعید اس شخص کے لئے ہوگی، جو یہ وصیت کر کے مرا ہو کہ مجھ پر چلا چلا کر رونا، نوحہ کرنا وغیرہ۔ ایسے شخص کو اس کے گھر والوں کے چلا کر رونے اورنوحہ کرنے سے عذاب ہوگا کہ وہ گناہ کاسبب بناہے، ورنہ اگر اس نے وصیت نہیں کی، تو اسے عذاب کیوں ہوگا؟ قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے واضح لفظوں میں ارشاد فرمادیا کہ کوئی بھی جان کسی دوسرے کے کئے اعمال کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ: "اس حدیث پاک میں عذاب سےمراد تکلیف ہے یعنی میت کے گھر والے جب چلاچلاکرروتے ہیں، تو میت کو اس سےتکلیف ہوتی ہے۔"

البتہ! یاد رہے کہ میت کی فوتگی کی وجہ سے شدت غم سے آنسو نکل آئے اور چیخ و پکار کے بغیر رونا آجائے، تو اس میں شرعاً حرج نہیں۔

محدث کبیر علامہ ملا علی قاری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:

و اختلف العلماء فيه: فذهب الجمهور إلى أن الوعيد في حق من أوصى بأن يبكى عليه، و يناح بعد موته، فنفذت وصيته، فهذا يعذب ببكاء أهله عليه و نوحهم; لأنه تسببه، و أما من بكوا عليه و ناحوا من غير وصية فلا; لقوله تعالى:{و لا تزر وازرة وزر أخرى}

ترجمہ: علماء کا اس حدیث میں اختلاف ہے، جمہو ر کا موقف یہ ہے کہ یہ وعید اس شخص کے حق میں ہے، جس نے خود پر رونے اور نوحہ کرنے کی وصیت کی ہو اور اس کی وصیت نافذ ہوگئی، تو ایسےشخص کو اس کےگھر والوں کے رونے اور نوحہ کی وجہ سے عذات ہوتا ہے، کہ یہ اس کا سبب بنا اور جو لوگ میت کی وصیت کے بغیر خود ہی روئیں اور نوحہ کریں، تو اس کاعذاب میت کو نہیں ہوتاکہ اللہ رب العزت کا فرمان موجود ہے کہ: کوئی بوجھ اٹھانے والی جانے دوسری کابوجھ نہیں اٹھاتی۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 03، صفحہ 1233، دار الفکر، بیروت، لبنان)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے

"قال ميرك نقلا عن التصحيح : اختلفوا في تعذيب الميت ببكاء أهله عليه۔۔۔ ۔۔۔ قال: و عندي والله أعلم أن يكون المراد بالعذاب هو الألم الذي يحصل للميت إذا سمعهم يبكون، أو بلغه ذلك، فإنه يحصل له تألم بذلك، و الله أعلم."

ترجمہ:محدث میرک نے تصحیح کے حوالے سے نقل فرمایاکہ اہل میت کے اس پررونے میت کوجوعذاب ہوتاہے اس کی مرادمیں اختلاف ہے، انہوں نے فرمایا: اور میرے نزدیک اس سے مرادیہ ہے (اور اللہ تعالی زیادہ بہتر جانتا ہے) کہ عذاب سے مرادوہ تکلیف ہوجومیت کواس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ ان کاروناسنتاہے یااسے ان کے رونے کی خبرپہنچتی ہے کہ اس سے اس کوتکلیف پہنچتی ہے۔ اور اللہ تعالی زیادہ بہترجانتاہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 03، صفحہ 1242، دار الفکر، بیروت، لبنان)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے

"(لا يعذب بدمع العين، و لا بحزن القلب) بل يثاب بهما إذا كانا على جهة الرحمة"

ترجمہ: آنسوؤں سے رونے اور دل غمگین ہونے پر عذاب نہیں ہوتا بلکہ ان پر تو ثواب ہوتا ہے جبکہ یہ رحمت کی بنا پر ہو۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 3، صفحہ 1233، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

فتاویٰ رضویہ میں ہے"چِلاّ کے رونے سے مُردے کو ضَرور تکلیف ہوتی ہے۔۔۔ چلّا کے رونے سے زندے پریشان ہوجاتے ہیں اِیذا پاتے ہیں نہ کہ مُردہ جس پر ابھی ایسی سخت تکلیف چلّانے کی گزرچکی ہے اس کی پریشانی اس کی ایذا (تکلیف)، بیان سے باہَر ہے ۔۔۔ علماء فرماتے ہیں:

المراد بالعذاب ھوالالم الذی یحصل للمیّت اذ سمعھم یبکون اوبلغہ ذلک فانہ یحصل لہ تألم بذٰلک (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 480 ،481، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3938

تاریخ اجراء: 19 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 16 جون 2025 ء