مجیب:مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1908
تاریخ اجراء:15ربیع الاوّل1446ھ/20ستمبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اس فرمان کا کیا مطلب ہے۔یعنی نیکی وہ ہے جس پر دل مطمئن ہو اگرچہ مفتی تمہیں جو بھی فتویٰ دے اگرچہ مفتی تمہیں جو بھی فتویٰ دے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حضور جانِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا حضرت سیدنا وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ کو یہ ارشاد فرمانا کہ: ’’ جس کام پر تمہارا دل و نفسِ مطمئنہ جمے وہ نیکی ہوگی اور جسے تمہارا دل و نفسِ مطمئنہ قبول نہ کرے وہ گناہ ہوگا‘‘یہ حکم خاص حضرت وابصہ رضی اللہ عنہ کے لئے ہی تھا۔ ان کے علاوہ سب کو حکم یہ ہے کہ غیر مجتہد(یعنی مقلد) اپنے امام سے فتویٰ لے گا اور اسی کے مطابق عمل کرے گا اگرچہ جو کام وہ کررہا ہو وہ اسے دل سے اچھا، یا برا لگتا ہو تاہم جو شریعت کا حکم ہوگا اسی پر عمل کا پابند ہوگا۔
حدیث شریف مع ترجمہ و تشریح ملاحظہ ہوں:
سنن دارمی کی حدیث شریف میں ہے: ”عن وابصة بن معبد الأسدي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لوابصة: جئت تسأل عن البر والإثم؟ قال: قلت: نعم، قال: فجمع أصابعه فضرب بها صدره، وقال:استفت نفسك، استفت قلبك يا وابصة ثلاثا۔ البر ما اطمأنت إليه النفس، واطمأن إليه القلب، والإثم ما حاك في النفس، وتردد في الصدر، وإن أفتاك الناس وأفتوك“ ترجمہ:حضرت وابصہ ابن معبد سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے وابصہ! تم نیکی اور گناہ کے متعلق پوچھنے آئے ہو؟میں نے عرض کیا: جی ہاں! فرماتے ہیں کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں جمع کرکے ان کے سینہ پر لگائیں اور تین بار فرمایا اپنے دل سے فتویٰ لے لیا کرو ، نیکی وہ ہے جس پر طبیعت جمے اور جس پر دل مطمئن ہواور گناہ وہ ہے جو طبیعت میں چبھے اور دل میں کھٹکے اگرچہ لوگ اس کا فتویٰ دے دیں۔(سنن الدارمی،جلد2، صفحہ 197، الحدیث:2533،مطبوعہ:بیروت)
اس حدیث پاک کی شرح بیان کرتے ہوئے حکیم الامت، مفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’یہ غیبی خبر ہے کہ حضرت وابصہ جو سوال دل میں لے کر آئے تھے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے بغیر عرض کئے ہوئے ارشا دفرمادیا۔معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں دلوں کے حال پر مطلع فرمایا ہے کیوں نہ ہو انہیں تو پتھروں کے دلوں پر اطلاع ہے کہ فرماتے ہیں احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت وابصہ کے سینہ پر ہاتھ رکھ کر ان کے قلب کو فیض دیا جس سے ان کا نفس بجائے امارہ کے مطمئنہ ہوگیا اور دل خطرات شیطانی وسوسوں سے پاک و صاف ہوگیا۔ صوفیاء کرام جو مریدوں کے سینے پر ہاتھ مار کر یا توجہ ڈال کر انہیں فیض دیتے ہیں ان کی اصل یہ حدیث بھی ہے۔ یعنی آج سے اے وابصہ گناہ اور نیکی کی پہچان یہ ہے کہ جس پر تمہارا دل و نفسِ مطمئنہ جمے وہ نیکی ہوگی اور جسے تمہارا دل و نفسِ مطمئنہ قبول نہ کرے وہ گناہ ہوگا، یہ حکم حضرت وابصہ کے لیے آج سے ہو گیا یہ حضور کے ہاتھ شریف کا اثر ہوا،ہم جیسے لوگوں کو یہ حکم نہیں۔یہاں مرقات نے فرمایا کہ غیر مجتہد یعنی مقلد تو اپنے امام سے فتویٰ لے اور مجتہد اپنے دل سے۔یعنی عام لوگوں کے فتویٰ کا تم اعتبار نہ کرنا کیونکہ ان کے دلوں پر ہمارا ہاتھ نہیں پہنچا،اپنے دل و نفس کا فتویٰ قبول کرنا کہ تمہارے دل کا فتویٰ ہمارا فیصلہ ہوگا کہ ہمارا ہاتھ تمہارے دل پر ہے۔‘‘(مراۃ المناجیح، جلد4 ،صفحہ 235، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟