
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایک عورت کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش ہوئی ہے، انہیں تیس دن خون آیا، پھر بند ہوگیا تو انہوں نے ایک عالمہ صاحبہ سے مسئلہ پوچھ کر پاک ہوکر نمازیں پڑھنا شروع کردیں، یہ خون گیارہ دن بند رہا پھر دوبارہ آنا شروع ہوگیا، اس لئے پھر نمازیں چھوڑ دیں، اب یہ خون چھ دن جاری رہ کر بند ہوگیا ہے۔
رہنمائی فرمائیں کہ اس عورت کا تیسویں دن خون بند ہونے پر نمازیں پڑھنا درست تھا یا نہیں؟ یہ چھ دن والا خون نفاس کا خون مانا جائے گا یا نہیں؟ اور اس دوران جو نمازیں ادا نہیں کی گئیں، ان کی قضا ہے یا نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں تیسویں دن خون بند ہو نے کے بعد اسلامی بہن کا نمازیں پڑھنا بالکل درست تھا، کیونکہ جب چالیس دن سے پہلے ہی خون بند ہوجائے تو عورت کو یہی حکم ہے کہ وہ نہاکر نمازیں پڑھنا شروع کردے۔
اب جو گیارہ دن خون بند رہنے کے بعد دوبارہ آیا اور مسلسل چھ دن آتا رہا تو اس کے متعلق حکم شرعی یہ ہے کہ اس صورت میں چونکہ دونوں خونوں کے درمیان 15 دن سے کم یعنی 11 دن کا فاصلہ ہے، جسے طہر ناقص کہتے ہیں اور یہ شرعی اعتبار سے مسلسل خون کے حکم میں ہوتا ہے، تو گویا اس خاتون کو 47 دن تک مسلسل خون جاری رہا اور ایسی صورت میں جس خاتون کے ہاں پہلی ولادت ہو اس کے شروع کے چالیس دن نفاس قرار پاتے ہیں (کہ یہی نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت ہے) اور بقیہ استحاضہ، تو مذکوہ خاتون کے بھی ابتدائی چالیس دن نفاس اور اس کے بعد استحاضہ کے ایام ہیں، لہٰذا چالیس دن کی نمازیں تو معاف ہیں، جبکہ اکتالیسویں دن جو نمازیں پڑھی گئیں،وہ سب درست ہوگئیں اور اکتالیسویں دن کے بعد جو چھ دن نمازیں نہیں پڑھیں، ان کی قضا کرنااور ان نمازوں کو چھوڑنے کی وجہ سے توبہ کرنا لازم ہے، کیونکہ استحاضہ میں نماز معاف نہیں ہوتی۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ جب اکتیسویں دن سے لے کر چالیسویں دن تک حکمی طور پر نفاس کے ایام ہیں، تو اس دوران اگر رمضان کے روزے رکھے تھے ، تو وہ روزے نہ ہوئے ، لہٰذا ان کی قضا کرنا بھی لازم ہے۔
نوٹ: اوپر ذکر کردہ حکم اس خاتون کی اب تک کی روٹین کے مطابق بیان کیا گیا ہے، لہٰذا اگر پندرہ دن مکمل ہونے سے قبل دوبارہ خون جاری ہوجاتا ہے،تو اپنی حیض کی سابقہ روٹین بتا کر مزید رہنمائی حاصل کر لی جائے۔
چالیس دن سے پہلے جب بھی عورت کا خون رک جائے تو اس کو حکم ہے کہ نہاکر نمازیں شروع کردے، فتاوٰی رضویہ میں ہے: ”یہ جو عوام جاہلوں عورتوں میں مشہور ہے کہ جب تك چلّہ نہ ہوجائے ،زچہ پاك نہیں ہوتی، محض غلط ہے خون بند ہونے کے بعد ناحق ناپاك رہ کر نماز روزے چھوڑ کر سخت کبیرہ گناہ میں گرفتار ہوتی ہیں، مردوں پر فرض ہے کہ انہیں اس سے باز رکھیں، نفاس کی ز یادہ حد کےلئے چالیس دن رکھے گئے ہیں نہ یہ کہ چالیس دن سے کم کا ہوتا ہی نہ ہو اس کے کم کےلئے کوئی حد نہیں اگر بچّہ جننے کے بعد صرف ایك منٹ خون آ یا اور بند ہوگیا عورت اُسی وقت پاك ہوگئی نہائے اور نماز پڑھے اور روزے رکھے، اگر چالیس دن کے اندر اُسے خُون عود نہ کرے گا تو نماز روزے سب صحیح رہیں گے۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 04، ص 356، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
جس خاتون کے ہاں پہلی ولادت ہو، اگر اس کو چالیس دن سے زیادہ خون آئے تو صرف چالیس دن نفاس ہوتے ہیں،باقی استحاضہ، چنانچہ درمختار و رد المحتار میں ہے:
(اکثرہ اربعون یوما والزئد علی اکثرہ استحاضۃ لو مبتدأۃ) یعنی انما یعتبر الزائد علی الاکثر استحاضۃ فی حق المبتدأۃ التی لم تثبت لھا عادۃ
ترجمہ: نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے اور اس سے زیادہ جو خون آئے تو وہ استحا ضہ ہے اگر عورت کے ہاں پہلی ولادت ہوئی ہو یعنی اکثر مدت سے زیادہ آنےوالے خون کو "مبتداۃ" کے حق میں کہ جس کی عادت ثابت نہ ہو ، استحاضہ مانا جائے گا۔ (الدر المختار مع رد المحتار، ج 01، ص 547، مطبوعہ کوئٹہ)
دونوں خونوں کے درمیان 15 دن سے کم کا فاصلہ ہو، تو یہ شرعی اعتبار سے مسلسل خون کے حکم میں ہوتا ہے، چنانچہ منھل الواردین میں ہے:
الطھر الصحیح ما لا یکون اقل من خمسۃ عشر یوما بان یکون خمسۃ عشر فاکثر لان ما دون ذالک طھر فاسد یجعل کالدم المتوالی
ترجمہ: طہر صحیح وہ ہوتا ہے جو پندرہ دن سے کم نہ ہو اس طرح کہ وہ پندرہ دن یا اس سے زائد ہو کیونکہ جو اس سے کم ہوگا وہ طہر فاسد ہے، اس کو جاری خون کی طرح مانا جائے گا۔ (مجموعۃ رسائل ابن عابدین، رسالۃ منھل الواردین، ج 01، ص 129، المکتبۃ المعروفیۃ)
لہٰذا مبتدأة کے حق میں شروع کے چالیس دن نفاس قرار پائیں گے اور بقیہ استحاضہ، چنانچہ منھل الواردین میں ہے:
و لو ولدت المبتدأۃ فا نقطع دمھا بعدساعۃ مثلا ثم رأت آخر الاربعین دما فکلہ نفاس و ان انقطع فی آخر ثلاثین ثم عاد قبل تمام خمس و اربعین من حین الولادۃ فالاربعون نفاس و یکو ن الدم الثانی استحاضۃ لما مر انہ لا یتوالی حیض و نفاس بل لا بد من طھر تام بینھما و لم یوجد
ترجمہ: اور جس عورت کے ہاں پہلا بچہ پیدا ہوا تو اس کا خون مثلاً ایک ساعت کے بعد بند ہوگیا پھر اس نے چالیسویں دن کے آخر میں دوبارہ خون دیکھا تو یہ پورے چالیس دن نفاس کے ہیں اور اگر تیس دن کے آخر میں خون بند ہوگیا پھر ولادت کے وقت سے پینتالیسویں دن سے پہلے دوبارہ خون آگیا تو چالیس دن نفاس کے ہیں اور دوسرا خون استحاضہ ہے،کیونکہ یہ پیچھےگزرچکا ہے کہ حیض و نفاس ایک ساتھ نہیں ہوسکتے، بلکہ دونوں کے درمیان کامل طہر کا پایا جانا ضروری ہے اور وہ یہاں نہیں پایا گیا۔ (مجموعۃ رسائل ابن عابدین، رسالۃ منھل الواردین، ج 01، ص 147، المکتبۃ المعروفیۃ)
مجلس افتاء کی جاری کردہ کتاب "حیض و نفاس کے احکام "میں ہے: ”اگر خون چالیس دن مکمل ہونے پر بھی نہ رکا بلکہ آگے والے ایام میں بھی خون کا سلسلہ جاری ہے تو فقط چالیس دن نفاس کے شمار ہوں گے کیونکہ نفاس اس سے زیادہ نہیں ہوسکتا، لہٰذا چالیس دن مکمل ہوتے ہی عورت غسل کرکے نمازیں شروع کردے گی۔۔ اگر عورت کو 30 دن خون آکر رک گیا پھر 14 دن خون نہ آیا اور پندرہویں دن پھر آگیا تو چونکہ یہ طہر ناقص یعنی 15 دن کا مکمل نہیں، اس لئے یہ حکمی طور پر خون کے ایام شمار ہوں گے اور یہ سمجھاجائے گا کہ عورت کو بچہ پیدا ہونے سےلے کر اب تک یعنی 44 دن تک خون جاری ہے، اس لئے شروع کے 40 دن نفاس شمار ہوں گے، بقیہ استحاضہ۔“(حیض و نفاس کے احکام، ص 65، مکتبۃ المدینہ)
نفاس میں نماز معاف جبکہ استحاضہ میں معاف نہیں، نیز ایام نفاس کے روزوں کی قضا فرض ہے، چنانچہ بہارشریعت میں ہے: ”ان دنوں(حیض و نفاس ) میں نمازیں معاف ہیں، ان کی قضا بھی نہیں اور روزوں کی قضا اور دنوں میں رکھنا فرض ہے۔“
اسی میں ہے: ”استحاضہ میں نہ نماز معاف ہے، نہ روزہ۔“ (بہار شریعت، ج 01، ص 380، 385، مکتبۃ المدینہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمدقاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0536
تاریخ اجراء: 11 رمضان المبارک 1446ھ/12 مارچ 2025ء