حیض و نفاس کی حالت میں موئے مبارک کی زیارت کرنا کیسا؟

حیض و نفاس والی عورت موئے مبارک کی زیارت کر سکتی ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا جنبی شخص اور حیض و نفاس والی عورت، موئے مبارک کی زیارت کرسکتی ہے؟ نیز ایسے کمرے میں جہاں زیارتیں تشریف فرماہوں کیا وہاں جنبی اور حیض و نفاس والی عورت داخل ہوسکتے ہیں اوروہاں بیٹھنا کیسا ہے ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جنبی ہونے اور حیض و نفاس کی حالت میں موئے مبارک کی زیارت کر سکتے ہیں، شرعاً اس میں کوئی گناہ نہیں، فقہائے کرام نے جنبی اور حیض و نفاس والی عورت کیلئے ناپاکی کی حالت میں قرآن کریم کی طرف نظر کرنے کو جائز فرمایا ہے ،لہذا جب اس حالت میں قرآن کریم کی زیارت کرسکتے ہیں ،تو اس حالت میں موئے مبارک کی زیارت بھی کی جاسکتی ہے۔ ہاں تعظیم و ادب جتنا زیادہ ہو،اتنا ہی اچھا ہے،خود صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ایسے ایسے ادب کے واقعات مروی ہیں کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعظیم و احترام والی چیزوں کی زیارت کرنے، ان کو بوسہ دینے، ہاتھ لگانے میں ادب کا تقاضا یہی ہے کہ انسان کو پاک ،صاف اور اچھی حالت میں ہونا چاہیے۔ بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک خدمت گار صحابی حضرت اسلع رضی اللہ عنہ کے بارے میں حدیث پا ک میں مذکور ہے کہ انہوں نے جنبی ہونے کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے کجاوے کو باندھنا اور اُسے ہاتھ لگانا ، گوارا نہیں فرمایا ،اسی طرح ایک حدیث پاک میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ انہوں نے جنبی ہونے کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھنا شایانِ شان نہ سمجھا اور جنابت سے غسل کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار فرمائی، لہذا جنبی شخص کیلئے تو یہی بہتر ہے کہ وہ غسل کرکے ہی موئے مبارک کی زیارت کرے ، البتہ حیض و نفاس والی عورت کو چونکہ ایک مخصوص وقت میں ہی پاک ہونا ہوتا ہے، لہذا اس کیلئے بہتر یہ ہے کہ وہ اسی حالت میں کم ازکم وضو کرکے زیارت کرلے۔ نیز جس کمرے میں مقدس زیارات موجود ہوں، وہاں جنبی شخص اور حیض و نفاس والی عورت داخل ہوسکتے ہیں اور وہاں بیٹھ بھی سکتے ہیں کہ ان کیلئے خاص مسجد کا داخلہ حرام ہے، البتہ اگر ایسے افراد کو مقدس زیارتوں والے کمرے میں داخل ہونے اور وہاں بیٹھنے کی کوئی خاص ضرورت نہ ہو تو بہتر اور تعظیم کے زیادہ لائق یہی ہے کہ اس حالت میں وہاں نہ جایا جائے۔

جنبی اور حیض ونفاس والی عورت کے لئے قرآن شریف کو دیکھنے سے متعلق جوہرۃ النیرہ میں ہے:

ولا يكره للجنب و الحائض والنفساء النظر إلى المصحف؛ لأن الجنابة لا تحل العين ألا ترى أنه لا يفرض إيصال الماء إليها

ترجمہ: اور جنبی اور حائضہ و نفاس والی عورت کیلئے قرآن شریف کی طرف نظر کرنا مکروہ نہیں ہے ،کیونکہ جنابت آنکھوں میں نہیں جاتی،کیا تو نہیں دیکھتا کہ غسل میں آنکھ کے اندر پانی پہنچانا فرض نہیں۔ (جوھرۃ النیرۃ، جلد 1، باب الحیض، صفحہ 31، المطبعة الخيرية)

تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:

(و لا يكره النظر إليه) أي القرآن(لجنب وحائض ونفساء) لأن الجنابة لا تحل العين

ترجمہ: اور جنبی اور حیض و نفاس والی عورت کا،قرآن شریف کی طرف نظر کرنا مکروہ نہیں ہے، کیونکہ جنابت آنکھوں میں نہیں جاتی۔ (تنویر الابصار مع در مختار، جلد 1، صفحہ 349، دار المعرفۃ، بیروت)

المعجم الکبیر للطبرانی، مجمع الزوائد، سنن کبری للبیہقی، کنز العمال کی حدیث پاک ہے:

و اللفظ للاول: عن الأسلع بن شريك، قال: كنت أرحل ناقة رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم، فأصابتني جنابة في ليلة باردة، و أراد رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم الرحلة، و كرهت أن أرحل ناقته، و أنا جنب، و خشيت أن أغتسل بالماء البارد فأموت أو أمرض، فأمرت رجلا من الأنصار فرحلها، و وضعت أحجارا، فأسخنت بها ماء فاغتسلت، ثم لحقت برسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم و أصحابه، فقال: «يا أسلع، ما لي أرى رحلتك تغيرت؟» فقلت: يا رسول اللہ ، لم أرحلها، رحلها رجل من الأنصار، قال: «و لم؟» فقلت: إني أصابتني جنابة فخشيت القر على نفسي، فأمرته أن يرحلها، ووضعت أحجارا فأسخنت ماء و اغتسلت به

ترجمہ: حضرت اسلع بن شریک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا کجاوہ باندھا کرتا تھا، ایک سرد رات میں مجھ پر غسل فرض ہوگیا، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کا ارادہ فرمایا اور مجھے یہ بات ناپسند ہوئی کہ میں جنبی ہونے کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا کجاوہ باندھوں، اور ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے میں مجھے خوف ہوا کہ میں انتقال کرجاؤں یا بیمار ہوجاؤں ،تو میں نے انصار کے ایک شخص کو کجاوہ باندھنے کا کہا، تو انہوں نے کجاوہ باندھ دیا، اور میں نے پتھروں کو اٹھایا اور اس سے پانی کو گرم کیا،پھر غسل کیا، پھر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے پاس پہنچا،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ اے اسلع!کیا بات ہے کہ میں آج تمہارے کجاوے باندھنے میں تبدیلی دیکھ رہا ہوں، تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! آج میں نے کجاوہ نہیں باندھا ہے، یہ انصار کے ایک شخص نے باندھا ہے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا کیوں؟ تو میں نے عرض کیا کہ مجھ پر غسل فرض ہوگیا تھا، تو مجھے اپنی جان پر ٹھنڈ کا خوف ہوا تو میں نے انہیں کجاوہ باندھنے کا کہا، اور میں نے پتھروں کو اٹھایا، پھر پانی کو گرم کیا اور اس سے غسل کیا۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، جلد 1، صفحہ 299، رقم الحدیث: 877، مطبوعہ قاهرة)

صحیح مسلم کی حدیث پاک ہے:

عن أبي هريرة، أنه لقيه النبي صلى اللہ عليه وسلم في طريق من طرق المدينة، وهو جنب فانسل فذهب فاغتسل، فتفقده النبي صلى اللہ عليه وسلم فلما جاءه قال: «أين كنت يا أبا هريرة» قال: يا رسول اللہ، لقيتني وأنا جنب فكرهت أن أجالسك حتى أغتسل، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: سبحان اللہ إن المؤمن لا ينجس

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کےکسی راستے میں ملے،اور وہ (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ) جنبی تھے،تو وہ آپ سے جدا ہوگئے اور وہاں سے چلے گئے اور غسل کیا،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو تلاش کیا،پھر جب وہ آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے ابو ہریرہ ! تم کہاں تھے ؟تو فرمایا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مجھے ملے تھے تو اس وقت میں جنبی تھا، تو میں نے ناپسند سمجھا کہ میں اس حالت میں آپ کے پاس بیٹھوں، یہاں تک کہ میں غسل کرلوں، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سبحان اللہ، مؤمن نجس نہیں ہوتا۔ (صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 283، رقم الحدیث: 371، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

اس حدیث پاک کی شرح میں علامہ احمد بن علی بن حجر مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ ’’فتح الباری شرح صحیح البخاری‘‘میں ارشاد فرماتے ہیں:

و في هذا الحديث استحباب الطهارة عند ملابسة الأمور المعظمة و استحباب احترام أهل الفضل و توقيرهم و مصاحبتهم على أكمل الهيئات

ترجمہ: اور اس حدیث میں تعظیم والے امور کے ساتھ ملابست(یعنی میل جول) كے وقت طہارت کا مستحب ہونا (ثابت ہوتا) ہے، اور اہل فضل کا احترام اور ان کی توقیر کرنے اور اچھی حالت و کیفیت کے ساتھ ان کی صحبت اختیار کرنے کا استحباب (ثابت ہوتا) ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری، جلد 1، صفحہ 333، دار المعرفة، بيروت)

جنبی اور حیض و نفاس والی کیلئے خاص مسجد کا داخلہ حرام ہے، لہذا یہی وجہ ہے کہ ان کیلئے فنائے مسجد، مدرسہ وغیرہ میں داخلہ جائزہے، چنانچہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:

’(و) أما (المتخذ لصلاة جنازة أو عيد۔۔۔۔فحل دخوله لجنب و حائض) كفناء مسجد و رباط و مدرسة‘‘ ملتقطاً۔

ترجمہ: جنازہ گاہ او ر عید گاہ تو اس میں جنبی شخص اور حیض ونفاس والی عورتوں کا داخل ہونا حلا ل ہے جیسا کہ فناء مسجد، خانقاہ اور مدرسہ کا حکم ہے۔ (تنویر الابصار مع درمختار، جلد 2، صفحہ 519،دار المعرفۃ، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-562

تاریخ اجراء: 09ربیع الثانی1446ھ/13 اکتوبر 2024ء