چوری کے پانی سے وضوکرنے کا حکم

چوری کے پانی سے وضو کیا تو کیا وضو ہو جائے گا؟

دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا چوری کے پانی سے وضو ہو جائے گا؟ اس حوالے سے شرعی رہنمائی فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

چوری کرنا، ناجائز وحرام ہے، ا ور چوری کرنے  کی  صور ت میں توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ اگر وہ چیز موجود ہو تو چیز واپس کرنا ضروری ہوتا ہے اور تلف(ضائع) ہوجائے تو اس چیز کا تاوان ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، البتہ! اگر کسی شخص نے چوری کے پانی سے وضو کر لیا تو اس کا وضو ہو جائے گا جبکہ وضو کے تمام فرائض صحیح ادا کیے ہوں اور توبہ کے ساتھ ساتھ جتنا پانی صرف ہوچکا اس کا تاوان بھی لازم ہوگا۔

اس کی نظیر نابالغ کے پانی سے وضو کرنا ہے کہ جو پانی نابالغ کی ملکیت ہو، والدین یا جس کا وہ ملازم ہے، اس کے علاوہ کسی اور کے لئے اس کو استعمال کرنا جائز نہیں لیکن اگر کسی نے وضو کرنے کے لئے استعمال کر لیا تو اس کا وضو ہو جائے گا۔

فتاوی رضویہ میں سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نابالغ کا پانی استعمال کرنے کے متعلق لکھتے ہیں: "آٹھ صورتوں میں وہ پانی اُس نابالغ کی مِلک ہے اور اُس میں غیر والدین کو تصرف مطلقاً حرام، حقیقی بھائی اُس پانی سے نہ پی سکتا ہے، نہ وضو کر سکتا ہے، ہاں طہارت ہو جائے گی اور ناجائز تصرف کا گناہ اور  اُتنے پانی کا اس پر تاوان رہے گا۔" (فتاوی رضویہ، جلد2، صفحہ527، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

بہار شریعت میں ہے "نابالغ کا بھرا ہوا پانی کہ شرعا اس کی ملک ہو جائے، اسے پینا یا وضو یا غسل یا کسی کام میں لانا اس کے ماں باپ یا جس کا وہ نوکر ہے اس کے سوا کسی کو جائز نہیں اگرچہ وہ اجازت بھی دے دے۔ اگر وضو کر لیا تو وضو ہو جائے گا اور گنہگار ہوگا۔" (بہار شریعت، جلد1، حصہ2، صفحہ334، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4340

تاریخ اجراء: 16ربیع الثانی1447 ھ/10اکتوبر2025 ء