
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ پانی میں ڈیٹول کے چند قطرے ڈال کر اس پانی سے نہایا جاتا ہے، ڈیٹول شامل کرنے کی وجہ سے پانی میں سے اس کی بو آنے لگتی ہے تو کیا ایسے پانی سے فرض غسل ادا ہوجائےگا؟ جبکہ ہدایہ وغیرہ کتب فقہیہ میں لکھا ہے کہ اگر پانی کا کوئی وصف رنگ، بو یا مزہ تبدیل ہوجائے تو اب وہ پانی وضو وغسل کے قابل نہیں رہتا۔ اس پر مفتیٰ بہ قول کیا ہے، ارشاد فرمادیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پانی میں ڈیٹول پانی کے مقابل بہت تھوڑی مقدار میں ملایا جاتا ہے جس سے پانی کی اپنی اصلی رقت میں تبدیلی نہیں ہوتی، یونہی اس سے پانی کا نام بھی زائل نہیں ہوتا بلکہ اسے پانی ہی کہتے ہیں ،ہاں! ڈیٹول کی مہک اس میں سے آنے لگتی ہے۔ اور تحقیق یہ ہے کہ پانی میں کوئی پاک چیز ملے تو اگر وہ شے پانی سے مقدار میں کم ہو اور اس کی وجہ سے پانی کی رقت یا نام میں تبدیلی واقع نہ ہو تو وہ مائے مطلق ہی رہتا ہے جس سے وضو و غسل دونوں ادا ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا عام طور پر جتنی مقدار میں ڈیٹول پانی میں ڈالا جاتا ہے اس ڈیٹول ملے پانی سے فرض غسل اد اہوجاتا ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ:
اگر پانی میں کوئی پاک مائع چیز مل جائے تو جب تک اس پر وہ شے غالب نہ آجائے اس سے وضو و غسل جائز ہے۔ اب یہ غلبہ درج ذیل تین طرح سے ہوسکتا ہے:
(1)یا تو اس طرح ہوگا کہ وہ ملنی والی شے پانی سے مقدار میں زائد یا برابر ہوگی، جوہرہ میں ہے:
و في الفتاوى الظهيرية محمد اعتبر اللون وأبو يوسف اعتبر الأجزاء وأشار الشيخ إلى أن المعتبر بالأوصاف، والأصح أن المعتبر بالأجزاء و هو أن المخالط إذا كان مائعا فما دون النصف جائز فإن كان النصف أو أكثر لا يجوز
ترجمہ: فتاوی ظہیریہ میں ہے: امام محمد رنگ کا اعتبار کرتے ہیں اور امام ابویوسف اجزاء کا اور شیخ قدوری نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اوصاف کی تبدیلی معتبر ہے،جبکہ اصح یہ ہےکہ اجزاء کا اعتبار ہے اور وہ یہ کہ مخالط اگر مائع ہو تو اگر پانی سے مقدار میں آدھے سے کم ہو تو وضو و غسل جائز ہے اور اگر آدھی یا زائد ہو تو ناجائز۔ (الجوہرۃ النیرۃ، ج 1، ص 12، المطبعة الخيرية)
(2) یا پھر یہ کہ اس پاک چیز کے ملنے کی وجہ سے پانی کی طبعی رقت باقی نہ رہے، بنایہ میں ہے:
فإن كانت رقته باقية جاز الوضوء به، وإن صار ثخينا بحيث زالت عنه رقته الأصلية لم يجز
ترجمہ: اگر پانی کی رقت باقی ہے تو اس سے وضو جائز ہے اور اگر پانی گاڑھا ہوگیا یوں کہ اس کی رقتِ اصلیہ باقی نہ رہی تو جائز نہیں۔ (البنایہ شرح الھدایہ، ج 1، ص 365، دار الكتب العلمية)
(3) یا پھر اس چیز کے ملنے سے اس مركب کو اب پانی نہ کہیں، تبیین الحقائق میں ہے:
لا يجوز الوضوء به لزوال اسم الماء عنه وهو المعتبر في الباب
ترجمہ: اس سے وضو جائز نہیں کیونکہ اس پر سے پانی کا نام زائل ہوگیا اور اس باب میں زوالِ اسم معتبر ہے۔ (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ج 1، ص 19، المطبعة الكبرى الأميرية)
ان تینوں اشیاء کو امام اہل سنت ایک جگہ جمع کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”مائے طاہر غیر مستعمل کے فی نفسہ ناقابل وضو ہوجانے کے چار بلکہ تین ہی سبب ہیں: (1) کثرت اجزائے مخالط جس میں حکماً دوسری صورت مساوات بھی داخل۔ (2) زوالِ رقت کہ جرم دار ہوجائے۔ (3) زوالِ اسم جس سے یہاں اس کی وہ خاص صورت مراد کہ مقصد دیگر کےلیے چیز دیگر ہوجائے۔“ (فتاوی رضویہ، ج 2، ص 123، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
اب رہا یہ سوال کہ ڈیٹول پانی میں ملائیں تو پانی میں سے ڈیٹول کی بو آتی ہے جس سے پانی کاوصفِ بو تبدیل ہوجاتا ہے، اس سے وضو، غسل کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ امام اہل سنت فرماتے ہیں: ”متون ایک کلیہ دربارہ جواز افادہ فرماتے ہیں کہ اختلاط طاہر سے پانی کے صرف وصف میں تغیر مانع وضو نہیں وصف سے مراد رنگ، مزہ، بو۔۔۔ اور تحقیق یہی ہےکہ تینوں وصفوں کا تغیر بھی کچھ مضر نہیں جب تک موانع ثلاثہ مذکورہ سے کوئی مانع نہ پایا جائے۔“ (فتاوی رضویہ، ج 3، ص 126، 128، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
ڈیٹول کی نظیر گلاب کے کیوڑے کی سی ہےاور اس کے بارے میں امام احمد رضا خان رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”اقول: گلاب کیوڑابید مشك بلاشبہ مزہ آب کے خلاف مزہ رکھتے ہیں اور ان کی بُو قوی تر ہےگھڑے بھر پانی میں تولہ بھر اُسے خوشبُودار کردیتاہے اور مزہ نہیں بدلتا توبحسب حکم منقول اُس سے وضو جائز رہے گا۔۔۔ مگر اہلِ ضابطہ کے نزدیك اُس سے وضو ناجائز ہونا لازم
لانہ ذو وصفین وقد تغیر واحد
(کیونکہ دو وصفوں والا ہے اور ایك وصف بدل چکا ہے۔ت) مگر یہ سخت بعیدبلکہ بداہۃً باطل ہے عرفًا لغۃً شرعًا اُس گھڑے بھر پانی کو جس میں چند قطرے گلاب کے پڑے ہیں پانی ہی کہاجائے گا تو وہ یقینا آب مطلق ہے اور اس سے بلاشبہ وضوجائز۔“ (فتاوی رضویہ، ج 2، ص 648، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: HAB-0401
تاریخ اجراء: 06 صفر المظفر 1446ھ / 12 اگست 2024ء