وضو میں گردن کا مسح بدعت ہے یا مستحب؟

گردن کا مسح کرنا بدعت ہے؟ اس کا ثبوت کہاں سے ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ آج کل سوشل میڈیا پر یہ بات کافی گردش کر رہی ہے کہ گردن کا مسح کرنا، درست نہیں ہے، بدعت ہے، بعض لوگ یہ کہتے بھی سنائی دے رہے ہیں کہ گردن کے مسح کا ثبوت دین میں کہیں بھی نہیں ہے، ضعیف روایت میں تو کیا؟ کسی موضوع اور جھوٹی روایت میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ برائے کرم بتائیے کہ کیا واقعی گردن کا مسح کرنا، غلط اور بدعت ہے اور قرآن و حدیث میں کہیں بھی گردن کے مسح کا ذکر نہیں؟

سائل: عبدالرحیم (فیصل آباد)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

وضو میں سرکے مسح کے ساتھ گردن کا مسح کرنا، نا صرف جائز، بلکہ مستحب، کارِ ثواب اور احادیثِ طیبہ، آثارِ صحابہ، اقوالِ اَئمہ اور عباراتِ فقہاء سے ثابت ہے، دینِ اسلام میں اس کے وجود کا سرے سے ہی انکار کرنا، اسے غلط و بدعت قرار دینا، علومِ حدیث سے ناواقفیت اور فقہی روایات سے نابلد ہونے کی دلیل ہے۔ نیز یہ یاد رہے کہ احناف کے نزدیک گردن کا مسح کرنا، فرض و واجب نہیں، بلکہ مستحب اور فضیلت والا عمل ہے اور کسی مستحب عمل کے لیے حدیثِ صحیح یا حسن کا ہونا ضروری نہیں، بلکہ حدیث ضعیف سے بھی کسی عمل کی فضیلت اور اس کا استحباب ثابت ہو جاتا ہے جب کہ گردن پر مسح کے متعلق ایک نہیں، کئی قولی و فعلی احادیث و آثار موجود ہیں، بلکہ حضرت وائل بن حجر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے جو حدیث مروی ہے حافظ عراقی رحمہ اللہ تعالی کے مطابق اس کی سندِ حسن ہے۔

احادیث و آثار:

مسند احمد سنن ابو داؤد، معجم كبير، سنن کبریٰ، وغیرہا کتبِ احادیث میں ہے،

و اللفظ للأول:  عن طلحة، عن أبيه، عن جده، أنه رأى رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم يمسح رأسہ حتی بلغ  القذال، و ما يليه من مقدم العنق بمرة قال: القذال: السالفة العنق

ترجمہ: حضرت طلحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اپنے والد سے اور وہ اِن کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے سر کا ایک مرتبہ مسح فرمایا یہاں تک کہ قذال تک پہنچ گئے اور سر کے ساتھ ملے ہوئے گردن کے حصہ کابھی مسح فرمایا۔ راوی کہتے ہیں: قذال سے مراد گردن کا وہ حصہ جو کان کی لو سے ملا ہوتا ہے۔ (مسند احمد، جلد 25، صفحہ 301، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)

اور سنن ابو داؤد کے الفاظ میں یہ بھی ہے:

حتی بلغ  القذال وهو أول القفا

یعنی: یہاں تک کہ قذال یعنی گدی کے ابتدائی حصے تک۔ (سنن ابو داؤد، باب صفۃ وضوء النبی ﷺ، جلد 1، صفحہ 1، مطبوعہ بیروت)

علامہ قاسم بن سلام ہروی بغدادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات : 224ھ ) حدیثِ پاک کی اپنی معروف کتاب "الطھور" میں لکھتے ہیں:

عن موسى بن طلحة، قال: من مسح قفاہ مع رأسه وقي الغل يوم القيامة

ترجمہ: حضرت موسیٰ بن طلحہ رَضِیَ اللہ عَنْہ بیان کرتے ہیں: جس نے اپنے سر کے ساتھ گدی کا مسح کیا، وہ قیامت کے دن کی سختی سے محفوظ رہے گا۔ (الطھور، ص 373، مطبوعہ مکتبۃ الصحابہ جدۃ)

مسند بزار، معجم كبير وغیرہا کتبِ احادیث میں ہے،

و اللفظ للاوّل:  عن وائل بن حجر، رضي اللہ عنه، قال شهدت النبي صلى اللہ عليه و سلم و أتي بإناء فيه ماء... و أدخل إصبعيه في داخل أذنيه و مسح ظاھر رقبته

ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام کے ساتھ تھا، تو ایک برتن لایا گیا، جس میں پانی تھا (پھر حضرت وائل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام کے وضو کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں) نبی مکرم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں داخل فرمائیں اور اپنی گردن کا مسح کیا۔ (مسند البزار، جلد 10، صفحہ 355، مطبوعہ مدینہ)

امام ابو نعیم اصبہانی "تاریخ اصبہان" میں حدیثِ پاک روایت کرتے ہیں:

حدثنا محمد بن أحمد حدثنا عبد الرحمن بن داود حدثنا عثمان بن خرزاذ حدثنا عمر بن محمد بن الحسن حدثنا محمد بن عمرو الأنصاري عن أنس بن سيرين عن ابن عمر، أنه كان إذا توضأ و مسح عنقه و يقول: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم: من توضأ ومسح عنقه لم يغل بالأغلال يوم القيامة

ترجمہ: (امام اصبہانی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے اوّلاً حضرت ابنِ عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ تک مکمل سند ذکر کی، پھر فرمایا:) حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہمَا جب وضو کرتے، تو اپنی گردن کا مسح کرتے اور فرماتے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے وضو کیا اور اپنی گردن کا مسح کیا، وہ قیامت کے دن کی سختی سے محفوظ رہے گا۔ (تاریخ اصبھان، جلد 2، صفحہ 78، مطبوعہ بیروت)

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہمَا سے مروی مذکورہ بالا حدیثِ پاک کا ایک دوسرا طریق بھی ہے، چنانچہ امام ابو المحاسن عبد الواحد بن اسماعیل رویانی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 502 ھ) لکھتے ہیں:

رأيته في تصنيف الشيخ أبى الحسن أحمد بن فارس بن زكريا "بإسناده عن فليح بن سليمان، عن نافع، عن ابن عمر رضي اللہ عنهما أن النبي صلى اللہ عليه و سلم قال: "من توضأ ومسح يديه على عنقه  وقي  الغل يوم القيامة". وهذا صحيح إن شاء اللہ

ترجمہ: میں نے شیخ ابو الحسن احمد بن فارس بن زکریا عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کی کتاب میں پڑھا، وہ اپنی سند سے حضرت فلیح بن سلیمان سے وہ حضرت نافع سے اور وہ حضرت عبداللہ بن عمر عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے حدیثِ پاک بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے وضو کیا اور اپنے ہاتھوں سے گردن کا مسح کیا، تو وہ قیامت کے دن کی سختی سے محفوظ رہے گا۔(علامہ رویانی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کی حدیثِ پاک نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:) یہ حدیث صحیح ہے، ان شاء اللہ عزوجل۔ (بحر المذھب، جلد 1، صفحہ 101، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

علامہ رویانی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے حدیث ذکر کرنے کے بعد فرمایا ”ھذا صحیح ان شاء اللہ“، اصولِ حدیث کے مطابق جب کوئی حدیث اصلاً صحیح ہو، مگر سند میں کسی علتِ خفیہ کا احتمال ہو، تو حکم لگاتے ہوئے احتیاطاً ” صحیح ان شاء اللہ “ کہہ دیتے ہیں۔ اس کا کم از کم درجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ حدیث بذاتِ خود سنداً حسن ہے۔ علامہ رویانی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کے اس کلام کو علامہ ابن ملقن عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے "شرح ابن رسلان" میں اور حافظ ابنِ حجر عسقلانی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے "تلخیص الحبیر" میں بھی نقل کیا ہے، جیساکہ ذیل میں بیان کیا جائے گا۔

کنز العمال، جمع الجوامع، جامع الاحادیث وغیرہا کتبِ احادیث میں حضرت مولیٰ علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے وضو کا طریقہ مروی ہے،

و اللفظ للاوّل:  عن محمد ابن الحنفية قال: دخلت على والدي علي بن أبي طالب و إذا عن يمينه إناء من ماء...، ثم مسح عنقہ و قال: اللّٰهم نجنا من مقطعات النيران و اغلالها...الخ

ترجمہ: حضرت محمد بن حنفیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے والدِ ماجد حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس حاضر ہوا، تو آپ کی دائیں جانب برتن پڑا تھا، جس میں پانی تھا (جس سے آپ نے وضو کیا، یہاں تک کہ) آپ نے اپنی گردن کا مسح کیا اور پھر یہ دعا پڑھی: اے اللہ! ہمیں آگ کی چنگاریوں اور اس کی سختیوں سے محفوظ فرما۔ (کنز العمال، کتاب الطھارۃ، باب اذکار الوضوء، جلد 9، صفحہ 468، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)

بعض روایات کی سند پر اگرچہ محدثین نے کلام کیا ہے،مثلاً اس روایت "مسح الرقبة أمان من الغل" کے متعلق بعض محدثین نے غیر معروف، غیرِ صحیح کا قول کیا، بلکہ امام نووی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے اسے موضوع اور مسح كو بدعت قرار ديا، لیکن دیگر محدثین نے ان کی اس بات کا رد کیا ہے اور فرمایا امام بغوی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ جیسے جلیل القدر ائمہ نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے، حالانکہ کسی عمل کی فضیلت اور استحباب کے لیے کم از کم کوئی خبر یا اثر درکار ہوتا ہے، ایسی چیز اپنی عقل سے بیان نہیں کی جا سکتی، تو ضرور ان کے پاس کوئی روایت موجود ہوگی،نیز اگر کسی ایک امام کی تحقیق میں کوئی روایت موضوع ہو، تو صرف اسی بنیاد پر اس عمل کو بدعت نہیں قراردیا جاسکتا، اس لیے کہ گردن کے مسح کے ثبوت پر صرف یہی ایک روایت نہیں، اس کے علاوہ بھی بہت سی روایات ہیں، جن کی سند پر ایسا کلام نہیں اور وہ روایات اس حدیث کی شاہد بھی ہیں اور اسے تقویت بھی دیتی ہیں، جیساکہ اوپر روایات مذکور ہوئیں۔

اور بعض روایات موقوف ہیں، جیسے حضرت علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا عمل "ثم مسح عنقہ"، تو اس طرح کی روایات کے متعلق محدثین کرام فرماتے ہیں کہ جو روایات موقوف (وہ حدیث جس میں کسی قول، فعل یا عمل کی نسبت صحابی کی طرف ہو) ہیں، ان کا حکم بھی اس مقام پر حدیثِ مرفوع والا ہے، اصول یہ ہے کہ ایسے امور جو خلافِ قیاس ہوں (یعنی عبادات و اعمال پر مخصوص ثواب اور عقائد و امورِ آخرت وغیرہ) ان میں حدیثِ موقوف بھی حدیثِ مرفوع کے حکم میں ہوتی ہے، کیونکہ ایسے امور صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اپنی عقل سے بیان نہیں کرتے، بلکہ ضرور انہوں نے اس کو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سنا ہوتا ہے، جب کہ روایت کرنے والے صحابی اسرائیلیات کو روایت کرنے والے نہ ہوں۔ تو گردن پر مسح کے متعلق بھی جو موقوف روایات ہیں وہ مرفوع کے حکم میں ہوں گی اور یہ کہاجائے گا کہ صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے یہ فضائل ضرور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سنے ہیں۔نیز حضرت موسیٰ بن طلحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی روایت"من مسح قفاہ مع رأسه وقي الغل يوم القيامة" مرسل ہے، کیونکہ آپ تابعی ہیں، مگر تابعی کی مرسل جمہور کے نزدیک حجت ہے، بلکہ اگر اس کی تقویت دیگر احادیث سے بھی ہو جائے، تو تمام محدثین کے نزدیک حجت ہے۔

چنانچہ مسح الرقبۃ کے متعلق وارد ہونے والی احادیث پر کلام کرتے ہوئے علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 852ھ / 1449ء) "تلخیص الحبیر" میں لکھتے ہیں:

حديث روي أن النبي صلى اللہ عليه و سلم قال: "مسح الرقبة أمان من الغل" هذا الحديث أورده أبو محمد الجويني وقال:لم يرتض أئمة الحديث إسناده فحصل التردد في أن هذا الفعل هو سنة أو أدب و تعقبه الامام بما حاصله أنه لم يجر للأصحاب تردد في حكم مع تضعيف الحديث الذي يدل عليه... و قال النووي في شرح المهذب هذا حديث موضوع ليس من كلام النبي صلى اللہ عليه وسلم و زاد في موضع آخر لم يصح عن النبي صلى اللہ عليه و سلم فيه شيء و ليس هو سنة بل بدعة و لم يذكره الشافعي و لا جمهور الأصحاب و إنما قاله ابن القاص وطائفة يسيرة و تعقبه ابن الرفعة بأن البغوي من أئمة الحديث وقد قال باستحبابه ولا مأخذ لاستحبابه إلا خبر أو أثر لأن هذا لا مجال للقياس فيه، انتهى كلامه ولعل مستند البغوي في استحباب مسح القفا ما رواه أحمد وأبو داود من حديث طلحة بن مصرف عن أبيه عن جده أنه رأى النبي صلى اللہ عليه و سلم يمسح رأسه حتى بلغ القذال وما يليه من مقدم العنق، و إسناده ضعيف كما تقدم و كلام بعض السلف الذي ذكره ابن الصلاح يحتمل أن يريد به ما رواه أبو عبيد في كتاب الطهور عن عبد الرحمن بن مهدي عن المسعودي عن القاسم بن عبد الرحمن عن موسى بن طلحة قال: "من مسح قفاه مع رأسه وقي الغل يوم القيامة"قلت: فيحتمل أن يقال هذا وإن كان موقوفا، فله حكم الرفع لأن هذا لا يقال من قبل الرأي فهو على هذا مرسل...و في البحر للروياني لم يذكر الشافعي مسح العنق، و قال أصحابنا:هو سنة وأنا قرأت جزءا رواه أبو الحسين بن فارس بإسناده عن فليح بن سليمان عن نافع عن ابن عمر أن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال: "من  توضأ ومسح بيديه على عنقه  وقي  الغل يوم القيامة" و قال هذا إن شاء اللہ  حديث صحيح

ترجمہ: مفہوم اوپر گزر چکا۔ (التلخيص الحبير، جلد 1، صفحہ 286، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)

علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) "الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة "میں لکھتے ہیں:

و قد ثبت في حديث وائل أنه عليه الصلاة و السلام مسح ظاهر رقبته رواه الترمذي و به استحبه علماؤنا ..... قلت لكن رواه أبو عبيد القاسم عن القاسم بن عبد الرحمن عن موسى بن طلحة قال من مسح قفاه مع رأسه و قي من الغل و الحديث موقوف إلا أنه في الحكم مرفوع لأن مثله لا يقال بالرأي ويقويه ما روي مرفوعا من مسند الفردوس من حديث ابن عمر لكن بسند ضعيف والضعيف يعمل به في فضائل الأعمال اتفاقا و لذا قال أئمتنا إن مسح الرقبة مستحب أو سنة

یعنی: حضرت وائل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی روایت سے یہ بات ثابت ہوچکی کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےگردن کا مسح فرمایا تھا، اسی وجہ سے ہمارے علما اس کو مستحب قراردیتے ہیں۔ مزید یہ کہ حضرت موسیٰ بن طلحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی حدیث اگرچہ موقوف ہے، لیکن یہ مرفوع کے حکم میں ہے، کیونکہ ایسی بات اپنی رائے سے بیان نہیں کی سکتی، نیز اس روایت کی تقویت مسند الفردوس میں حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سےمروی مرفوع حدیثِ پاک سے بھی ہوتی ہے، اگرچہ اس کی سندضعیف ہے، لیکن حدیثِ ضعیف فضائلِ اعمال میں بالاتفاق قابلِ عمل ہے، اسی وجہ سے ہمارے ائمہ نے گردن کے مسح کو مستحب یا سنت قرار دیا ہے۔ (الأسرار المرفوعۃ، صفحہ 315، 489، مطبوعہ دار الامانۃ، بیروت)

اسی مفہوم کو علامہ زین الدین عراقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ( سالِ وفات: 806ھ) نے احیاء العلوم کی احادیث کی تخریج کرتے ہوئے "المغنی عن حمل الأسفار فی الاسفار" میں اور شیخِ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی حنفی بخاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1052ھ) نے " لمعات التنقیح فی شرح مشکاۃ المصابیح" میں بیان کیا ہے۔ (المغني، صفحہ 158، مطبوعہ بیروت / لمعات التنقیح، ج 2، ص 126، مطبوعہ دار النوادر)

حضرت وائل بن حجر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی حدیث سنداً حسن ہے۔

چنانچہ علامہ نور الدین علی بن محمد ابنِ عراق الکنانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 963ھ) "تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاخبار الشنیعۃ الموضوعۃ" نقل کرتے ہیں: 

و قد سبق النووي إلى إنكاره ابن الصلاح و قال لا يعرف مرفوعا وإنما هو قول بعض السلف، قال العراقي نعم ورد مسح الرقبة من حديث وائل بن حجر في صفة وضوء النبي، أخرجه الطبراني و البزار في الكبير بسند لا بأس به و اللہ أعلم

یعنی امام نووی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ سے پہلے حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ تعالی نے اس روایت "مسح الرقبۃ أمان من الغل" کا انکار کیا اور فرمایا: کہ اس باب میں کوئی مرفوع روایت معلوم نہیں ہے، لیکن حافظ عراقی نےفرمایا کہ حضرت وائل بن حجر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی حدیثِ پاک موجود ہے، جس کو امام طبرانی و امام بزار عَلَیْہِمَا الرَّحْمَۃ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں حرج والی کوئی بات نہیں۔ (تنزیہ الشریعۃ، ج 2، ص 75، مطبوعہ بیروت)

حدیث ضعیف متعدد طرق سے مروی ہو، تو قوی ہو کر حسن لغیرہ کے درجے تک پہنچ جاتی ہے، چنانچہ فتح المغیث میں ایک حدیثِ پاک کے متعلق ہے:

و هذه و إن كانت أسانيد مفرداتها ضعيفة، فمجموعها يقوي بعضه بعضا، و يصير الحديث حسنا و يحتج به

ترجمہ: یہ اسناد الگ الگ طور پر اگرچہ ضعیف ہیں، لیکن مجموعی طور پر ان میں سے بعض، دوسری بعض کو قوی کر رہی ہیں اور (متعدد طرق کی وجہ سے) یہ حدیث حسن ہو گئی اور اس سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ (فتح المغيث بشرح الفية الحديث، جلد 1، صفحہ 94، مطبوعہ مصر)

امامِ اہل سنت عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ لکھتے ہیں: ”حدیث اگر متعدد طریقوں سے روایت کی جائے اور وہ سب ضعف رکھتے ہوں تو ضعیف ضعیف مل کر بھی قوت حاصل کرلیتے ہیں، بلکہ اگر ضعف غایت شدّت وقوّت پر نہ ہوتو جبر نقصان ہوکر حدیث درجہ حسن تک پہنچتی اور مثل صحیح خود احکامِ حلال وحرام میں حجّت ہوجاتی ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 5، صفحہ 472، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

تعددِ طرق کے ذریعے ضعیف حدیث کے درجۂ حسن تک پہنچنے کے لیے صرف دو طریق کافی ہیں، جیساکہ علامہ عبد الرؤف مُناوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1031ھ) ایک حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:

ضعيف لضعف عمرو بن واقد لكنه يقوي بوروده من طريقين

ترجمہ: یہ حدیث عمرو بن واقد کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن دو طریق سے آنے کی وجہ سے یہ قوی ہو گئی ہے۔

اور دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:

إسناده ضعيف لكن يجبره ما قبله فيتعاضدان

ترجمہ: اس کی سند ضعیف ہے، لیکن ماقبل حدیث نے اس ضعف کو پورا کر دیا، تو دونوں روایتیں ایک دوسرے کو قوی کر رہی ہیں۔ (التيسير، ج 1، ص 217، 204، مكتبة الامام الشافعي)

کوئی سند صحت کی شرائط پر ہو، لیکن اس میں کوئی علتِ خفیہ کا احتمال ہو، تومحدثین احتیاطاً ”حدیث صحیح ان شاءاللہ“ کہہ دیتے ہیں، چنانچہ تدریب الراوی میں ہے:

و الأحوط في مثل ذلك أن يعبر عنه بصحيح الاسناد، ولا يطلق التصحيح لاحتمال علة للحديث خفيت عليه، وقد رأيت من يعبر خشية من ذلك بقوله  صحيح  إن  شاء  اللہ تعالى

مفہوم اوپر بیان ہو گیا۔ (تدریب الراوی، جلد 1، صفحہ 161، مطبوعہ دار طیبۃ)

علامہ علی قاری حنفی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ لکھتے ہیں:

و المرسل حجۃ عندنا وعند  الجمهور، و إذا اعتضد فعند الكل

ترجمہ: مرسل حدیث ہمارے اور جمہور محدثین کے نزدیک حجت ہے اور اگر اس کو دیگر روایات سے تقویت حاصل ہو جائے، تو سب کے نزدیک حجت ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 6، صفحہ 2226، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ لکھتے ہیں: ”مرسل ہمارے اور جمہور کے نزدیک حجت ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، ج 5، ص 293، رضا فاؤنڈیشن)

عباراتِ فقہاء:

مبسوطِ سرخسی، تحفۃ الفقہاء، بدائع الصنائع، محیط برہانی، ہدایہ، بنایہ، فتح القدیر، کنز الدقائق، بحرالرائق، تبیین الحقائق، مراقی الفلاح، تنویر الابصار و درمختار، ردالمحتار، فتاویٰ عالمگیری وغیرہا کتبِ فقہ میں ہے،

و اللفظ للبحر: (قوله: و مسح رقبته) يعني بظهر اليدين لعدم استعمال بلتهما... الصحيح أنه أدب، و هو بمعنى المستحب كما قدمناه، و أما مسح الحلقوم فبدعة

 ترجمہ: اور ہاتھوں کی پشت کے ساتھ گردن کامسح کیا جائے گا، کیونکہ ہاتھوں کی پشت کی تری استعمال نہیں ہوتی، اور صحیح یہ ہے کہ یہ ادب ہے اور مستحب کے معنیٰ میں ہے، جیسا کہ ہم نے اس کو پہلے بیان کر دیا، البتہ گلے کا مسح کرنا،بدعت ہے۔ (بحرالرائق، جلد 1، صفحہ 29، مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی)

امامِ اہلِ سنّت عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ لکھتے ہیں:”مولانا علی قاری موضوعاتِ کبیر میں حدیثِ مسحِ گردن کا ضعف بیان کرکے فرماتے ہیں:

الضعیف یعمل بہ فی الفضائل الاعمال اتفاقاولذا قال ائمتنا ان مسح الرقبۃ مستحب اوسنۃ

فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر بالاتفاق عمل کیا جاتا ہے، اسی لئے ہمارے ائمہ کرام نے فرمایا کہ وضو میں گردن کا مسح مستحب یا سنّت ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، ج 5، ص 482، رضا فاؤنڈیشن)

مزید تفصیلات کے لیے علامہ عبدالحی لکھنوی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کا رسالہ: "تحفۃ الطلبۃ فی تحقیق مسح الرقبۃ" ملاحظہ کیجیے۔

تنبیہ:

رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس پرفتن دور کے بارے میں بہت پہلے اللہ پاک کے عطا کردہ علم غیب سے ہمیں خبر عطا فرما دی تھی کہ ایسا پرفتن دور آئے گا کہ لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا اور مقتدیٰ بنا لیں گے اور وہ گمراہ کن، کم فہم، نام نہاد علما لوگوں کو گمراہ کریں گے، چنانچہ صحیح بخاری کی حدیثِ پاک ہے:

إن اللہ لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد، و لكن يقبض العلم بقبض العلماء، حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا، فسئلوا فأفتوا بغير علم، فضلوا وأضلوا

یعنی اللہ پاک علم کو بندوں(کے سینوں ) سے کھینچ کر نہ اٹھائے گا بلکہ علما کی وفات سےعلم اٹھائے گا، حتی کہ جب کوئی عالم نہ رہے گا، لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے، جن سے مسائل پوچھے جائیں گے وہ بغیر علم فتویٰ دیں گے، تو وہ خودبھی گمراہ ہوں گے اور (دوسروں کو بھی) گمراہ کریں گے۔ (صحیح بخاری، جلد 1، صفحہ 31، مطبوعہ مصر)

اور دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

إنما أخاف على أمتي الأئمة المضلين

 یعنی مجھے اپنی امت پر گمراہ کن ائمہ کا خوف ہے۔ (خطبا، جعلی محقق، جعلی عالم و مفتی، جاہل لیڈر اور بظاہر علم بیان کرنے والے واعظ سب اس میں شامل ہوں گے) (سنن ترمذی، جلد 4، صفحہ 504، مطبوعہ مصر)

یہ ارشاداتِ نبوی (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) واقعی سچ ثابت ہوتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ دو چار احادیث کسی نے یاد کر لیں تو وہ محقق بن بیٹھتا ہے،اپنے آپ کو عالم، مفتی، مناظر اسلام گرداننے لگ جاتا ہے اور پھر اس طرح کے لوگ علماء کے روپ میں سوشل میڈیا پر آ کر قرآن و حدیث کی غلط تشریحات کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اپنے موقف کے خلاف آنے والی ہر حدیث کو غلط، موضوع، من گھڑت، غیرِ صحیح اور ضعیف کہہ کر رد کردیتے ہیں، حالانکہ حدیثِ پاک اگرچہ کتنے ہی شدید درجہ کی ضعیف ہو، معتبر ہے، اس کا سرے سے ہی انکار کر دینا یا اس کو استہزائیہ انداز میں پیش کرنا، انتہائی بے باکی اور وبالِ آخرت کا موجب ہے۔ جب کہ محدثین و علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ جب تک کسی حدیث یا روایت کا بطلان اور موضوع ہونا ثابت نہ ہو جائے، فضائل اعمال میں اس پر عمل کیا جائے گا، خواہ وہ کتنی ہی شدید درجہ کی ضعیف ہو، جب کہ وہ روایت قرآن و سنت اور اجماع کے مخالف نہ ہو۔

فضائل و وعیدات کے متعلق وارد ہونے والی روایات پر عمل کی اہمیت کے بارے میں امامِ اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کی انتہائی اہم گفتگو ملاحظہ کیجیے، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ لکھتے ہیں: ”فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے حدیث ضعیف ثبوت استحباب کے لئے بس ہے....اعتماد کے قابل یہ بات ہے کہ جب کسی عمل کی فضیلت میں کوئی حدیث پائی جائے اور وہ حرمت وکراہت کے قابل نہ ہو، تو اُس حدیث پر عمل جائز ومستحب ہے کہ اندیشہ سے امان ہے اور نفع کی اُمید۔اندیشہ سے امان یوں کہ حُرمت وکراہت کا محل نہیں اور نفع کی اُمید یوں کہ فضیلت میں حدیث مروی ہے اگرچہ ضعیف ہی سہی.....۔

خود احادیث حکم فرماتی ہیں کہ ایسی جگہ حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے۔ جان برادر اگر چشم بینا اور گوش شنوا ہے تو تصریحاتِ علما درکنار خود حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے احادیث کثیرہ ارشاد فرماتی آئیں کہ ایسی جگہ حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے اور تحقیق صحت وجودت سند میں تعمق وتدقق راہ نہ پائے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں: حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علیہم اجمعین فرماتے ہیں:

من بلغہ عن اللہ عزوجل شیئ فیہ فضیلۃ فاخذ بہ ایمانابہ و رجاء ثوابہ اعطاہ اللہ تعالٰی ذلک و ان لم یکن کذلک۔

جسے اللہ تبارک و تعالیٰ سے کسی بات میں کچھ فضیلت کی خبر پہنچے وہ اپنے یقین اور اُس کے ثواب کی اُمید سے اُس بات پر عمل کرے اللہ تعالیٰ اُسے وہ فضیلت عطا فرمائے اگرچہ خبر ٹھیک نہ ہو۔ (کنز العمال) یہ لفظ حسن کے ہیں اور دارقطنی کی حدیث میں یوں ہے:

اعطاہ اللہ ذلک الثواب و ان لم یکن مابلغہ حقا۔

اللہ تعالیٰ اسے وہ ثواب عطا کرے گا اگرچہ جو حدیث اسے پہنچی حق نہ ہو۔ (کتاب الموضوعات) ابنِ حبان کی حدیث میں یہ لفظ ہیں:

کان منی اولم یکن۔

چاہے وہ حدیث مجھ سے ہو یا نہ ہو۔ ابنِ عبداللہ کے لفظ یوں ہیں:

و ان کان الذی حدثہ کاذبا۔

اگرچہ اس حدیث کا راوی جھُوٹا ہو۔ (مکارم الاخلاق لابی الشیخ)۔ .... ابو یعلی اور طبرانی معجم اوسط میں سیدنا ابی حمزہ انس رضی اللہ عنہ سے راوی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

من بلغہ عن اللہ تعالٰی فضیلۃ فلم یصدق بھالم یتلھا۔

جسے اللہ تعالیٰ سے کسی فضیلت کی خبر پہنچے وہ اسے نہ مانے، اُس فضل سے محروم رہے۔ (مسند ابویعلی)....۔

ان احادیث سے صاف ظاہر ہوا کہ جسے اس قسم کی خبر پہنچی کہ جو ایسا کرے گا یہ فائدہ پائے گا اُسے چاہتے نیک نیتی سے اس پر عمل کرلے اور تحقیق صحتِ حدیث ونظافتِ سند کے پیچھے نہ پڑے وہ ان شاء اللہ اپنے حسن نیت سے اس نفع کو پہنچ ہی جائے گا۔ اقول یعنی جب تک اُس حدیث کا بطلان ظاہر نہ ہوکہ بعد ثبوت بطلان رجاء وامید کے کوئی معنے نہیں .... اور وجہ اس عطائے فضل کی نہایت ظاہر کہ حضرت حق عزوجل اپنے بندہ کے ساتھ اُس کے گمان پر معاملہ فرماتا ہے، حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم اپنے رب عزوجل سے روایت فرماتے ہیں کہ مولیٰ سبحانہ، و تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اناعند ظن عبدی بی۔

میں اپنے بندہ کے ساتھ وہ کرتا ہوں جو بندہ مجھ سے گمان رکھتا ہے (صحیح لمسلم) جب اُس نے اپنی صدق نیت سے اس پر عمل کیا اور رب سے اُس نفع کی امید رکھی تو مولیٰ تبارک وتعالیٰ اکرم الاکرمین ہے اُس کی اُمید ضائع نہ کرے گا اگرچہ حدیث واقع میں کیسی ہی ہو۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 5، صفحہ 481 تا 489، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن)

مزید تفصیلات کے لیے امامِ اہل سنت عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کا رسالہ "منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین" ملاحظہ کیجیے۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حمزہ محمد حسان عطاری

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9243

تاریخ اجراء: 17 رجب المرجب 1446ھ / 18 جنوری 2024ء