بیٹھ کر یا لیٹ کر اونگھنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

اونگھ آنے سے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بیٹھ کر یا لیٹ کر اونگھ آنے سے کیا وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

نیند سے آنکھیں بند ہونے اور نیم غفلت کی کیفیت چھانے کو اونگھنا کہتے ہیں، اگر اس میں آدمی اتنا ہوشیار رہے کہ آس پاس کے لوگ جو باتیں کرتے ہوں، ان میں سے اکثر باتوں پر مطلع رہے، تو یہ ناقض وضو نہیں، لہٰذا بیٹھ کر اونگھ آئے یا لیٹ کر اس سے وضو نہیں ٹوٹتا، جبکہ اتنا ہوش و حواس قائم ہو۔ البتہ اگر اونگھ نیند میں بدل جائے، یعنی کامل غفلت طاری ہو جائے، تو نیند کے احکام جاری ہوں گے، اگرچہ گہری نیند میں نہ گیا ہو، لہٰذا اس صورت میں اگر ایسی حالت پر بیٹھے ہوئے نیند طاری ہوئی کہ دونوں سرین زمین وغیرہ پر خوب جمے ہوئے نہ تھے، تو وضو ٹوٹ جائے گا، ورنہ نہیں، اور لیٹے ہونے کی صورت میں مطلقاً وضو ٹوٹ جانے کا حکم ہوگا۔

علامہ ابن عابدین سید محمد امین بن عمر شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:

و في الخانية:  النعاس لا ينقض الوضوء، و هو قليل نوم لا يشتبه عليه أكثر ما يقال عنده. قال الرحمتي: و لا ينبغي أن يغتر الإنسان بنفسه لأنه ربما يستغرقه النوم و يظن خلافه

ترجمہ: خانیہ میں ہے: اونگھ وضو نہیں توڑتی، اور اونگھ وہ تھوڑی نیند ہوتی ہے ،جس میں آدمی کے پاس کہی جانے والی زیادہ تر باتیں اس پر مشتبہ نہ ہوں۔ علامہ رحمتی نے فرمایا: اور انسان کو اپنی ذات سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے، کیونکہ بسا اوقات اسے نیند گھیر لیتی ہے اور وہ اس کے خلاف گمان کرتا ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الطهارة، سنن الوضوء، جلد 1، صفحہ 143، دار الفکر، بیروت)

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”اونگھ ناقضِ وضو نہیں، جبکہ ایسا ہوشیار رہے کہ پاس لوگ جو باتیں کرتے ہوں اکثر پر مطلع ہو، اگرچہ بعض سے غفلت بھی ہو جاتی ہو۔ (فتاوی رضویہ، جلد 1، صفحہ 491، رضا فاؤنڈیشن، لاہور(

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1367ھ / 1948ء) لکھتے ہیں: ”اونگھنے یا بیٹھے بیٹھے جھونکے لینے سے وضو نہیں جاتا۔ جھوم کر گر پڑا اور فوراً آنکھ کھل گئی، وضو نہ گیا۔ نماز وغیرہ کے انتظار میں بعض مرتبہ نیند کا غلبہ ہوتا ہے اور یہ دفع کرنا چاہتا ہے،تو بعض وقت ایسا غافل ہو جاتا ہے کہ اس وقت جو باتیں ہوئیں، ان کی اسے بالکل خبر نہیں، بلکہ دو تین آواز میں آنکھ کھلی اور اپنے خیال میں یہ سمجھتا ہے کہ سویا نہ تھا، اس کے اس خیال کا اعتبار نہیں، اگر معتبر شخص کہے کہ تُو غافل تھا، پکارا جواب نہ دیا یا باتیں پوچھی جائیں اور وہ نہ بتا سکے، تو اس پر وضو لازم ہے۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 308، مکتبة المدینہ، کراچی)

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں: ”سو جانے سے وضو جاتا رہتا ہے بشرطیکہ دونوں سرین خوب نہ جمے ہوں اور نہ ایسی ہیئت پر سویا ہو جو غافل ہو کر نیند آنے کو مانع ہو، مثلاً اکڑوں بیٹھ کر سویا یا چت یا پٹ یا کروٹ پر لیٹ کر یا ایک کہنی پر تکیہ لگا کریا بیٹھ کر سویا مگر ایک کروٹ کو جھکا ہوا کہ ایک یا دونوں سرین اٹھے ہوئے ہیں۔۔۔ ان سب صورتوں میں وضو جاتا رہا۔۔۔ دونوں سرین زمین یا کرسی یا بنچ پر ہیں اور دونوں پاؤں ایک طرف پھیلے ہوئے یا دونوں سرین پر بیٹھا ہے اور گھٹنے کھڑے ہیں اور ہاتھ پنڈلیوں پر محیط ہوں خواہ زمین پر ہوں ،دو زانو سیدھا بیٹھا ہو یا چار زانو پالتی مارے۔۔۔ تو ان سب صورتوں میں وضو نہیں جائے گا۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 307، مکتبة المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-906

تاریخ اجراء: 6 ربيع الآخر 1447ھ/ 30 ستمبر 2025ء