دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ اگر کافر اسلام قبول کرے، تو اس پر غسل کرنا لازم ہوتا ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر کوئی کافر اسلام قبول کرے، تواحادیث مبارکہ کی تصریحات کے مطابق اسے غسل کرنا چاہیے۔ البتہ یہ غسل کرنا مستحب ہے یا واجب، اس حوالے سے کچھ تفصیل ہے، جو درج ذیل ہے :
(1) اگر وہ حالتِ کفرمیں جنبی نہیں تھا اور اس نے اسلام قبول کیا، تو اس صورت میں غسل کرنا مستحب ہے۔
(2) اگر وہ پہلے سے جنبی تھا، تو اس پر غسل واجب ہونے یا نہ ہونے کے متعلق فقہائے احناف کا اختلاف ہے:
(۱) اس پر غسل لازم نہیں۔
(۲) اس پر غسل کرنا لازم و واجب ہے۔ اصولِ حنفیہ کی روشنی میں یہی قول مفتیٰ بہ ہے، اس لیے کہ یہ ظاہر الروایہ ہے، نیز اس کی تصحیح ائمہ سے منقول ہے۔
کوئی کافر اسلام قبول کرے، تواحادیث مبارکہ میں اس کے لیے غسل کا حکم مروی ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
”ثمامة بن اثال اسلم وامره النبي صلی اللہ علیہ و الہ وسلم أن يغتسل ثم امره ان يصلی“
ترجمہ: ثمامہ بن اثال نے اسلام قبول کیا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے انہیں حکم ارشاد فرمایا کہ وہ غسل کریں، پھر انہیں نماز پڑھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ (کنز العمال، ج9، ص571، رقم الحدیث: 27470، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
سنن نسائی میں حضرت قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کے متعلق مروی ہے:
”انہ اسلم فامرہ النبی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ان یغتسل بماء و سدر “
ترجمہ: قیس بن عاصم نے اسلام قبول کیا، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے انہیں پانی اور بیری سے غسل کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ (سنن نسائی، ج1، ص109، رقم الحدیث : 188، مطبوعہ القاھرۃ)
اگر کافر غیر جنبی حالت میں اسلام قبول کرے، تو اس کے لیے غسل کرنا مستحب ہے۔جیسا خزانۃ المفتین میں ہے:
”وغسل الكافر إذا أسلم، يستحب أن يغتسل وإن لم يفعل فلا يضره “
ترجمہ: کافر جب اسلام لائے، تو اسے غسل کرنا مستحب ہے، اگر اس نے غسل نہ کیا، تواسے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ (خزانۃ المفتین، ج 1، ص 129، مطبوعہ السعودیۃ )
البنایہ شرح الہدایۃ میں ہے :
”واحد مستحب: وهو غسل الكافر إذا أسلم ولم يكن جنبا“
ترجمہ: غسل کی ایک قسم مستحب ہے اور وہ یہ ہے: کافر کا غسل کرنا ہے کہ جب وہ اس حال میں اسلام قبول کرے کہ وہ جنبی نہ ہو۔ (البنایۃ شرح الھدایۃ، ج1، ص 346، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
اگر کافر اس حال میں اسلام قبول کرے کہ اسلام لانے سے قبل وہ جنبی تھا، تو اس پر قبولِ اسلام کے بعد غسل کرنا لازم و واجب ہے یا نہیں ؟ اس حوالے سے دو اقوال ہیں ۔چنانچہ تبیین الحقائق میں ہے:
” اذا اسلم الکافر جنبا ففیہ روایتان، فی روایۃ لا یجب لانہ لیس مخاطبا بالشرائع فصار کالکافرۃ اذحاضت و طھرت ثم اسلمت و فی روایۃ یجب علیہ لان وجوب الغسل بارادۃ الصلاۃ و ھو عندھا مخاطب فصار کالوضوء و ھذا لان صفۃ الجنابۃ مستدامۃ بعد اسلامہ فدوامھا بعدہ کانشائھا فیجب الغسل“
ترجمہ: جب کافر نے جنبی حالت میں اسلام قبول کیا، تو اس میں دو روایات ہیں، ایک روایت کے مطابق اس پر غسل واجب نہیں ہے، کیونکہ وہ شرعی احکام کا مخاطب نہیں ہے، پس وہ اس کافرہ عورت کی طرح ہے کہ جب اسے حیض آیا اور وہ پاک ہوئی، پھر اسلام لائی (تو اس پر غسل کرنا واجب نہیں ہوتا) اور ایک روایت میں ہے کہ اس پر غسل کرنا واجب ہے، کیونکہ غسل کا وجوب نمازکے ارادے کی وجہ سے ہے اور وہ نماز کے وقت اس کا مخاطب ہے، پس یہ وضو کی طرح ہے (کہ جیسے نماز کے لیے اس پر وضو لازم ہے، اس لیے جنبی حالت میں اسلام قبول کرنے پر نمازکے وقت اس پر غسل لازم ہو گا۔) اور یہ اس وجہ سے ہے کہ جنابت کی صفت اسلام لانے کے بعد دائمی ہے، پر اسلام لانے کے بعد اس کا دوام ایسے ہے جیسے اسلام کے بعد وہ نئے سرے سے پایا گیا ہو، تو اس پہ غسل واجب ہو گا۔ (تبیین الحقائق، ج، 1 ص18، مطبوعہ القاھرۃ )
وجوبِ غسل والا قول ظاہر الروایہ ہے۔ جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں ہے:
”الکافر اذاجنب ثم اسلم یجب علیہ الغسل فی ظاھر الروایۃ “ ترجمہ: کافر پر غسل لازم ہوا اور اس کے بعد وہ اسلام لایا، تو ظاہر الروایہ کے مطابق اس پر غسل واجب ہو گا۔ (الفتاوی الھندیۃ ، ج1، ص16، دار الفکر، بیروت )
تبیین الحقائق کے تحت حاشیۃ الشلبی میں ہے:
”قولہ (وفی روایۃ یجب علیہ) ای وھو ظاھر الروایۃ قال استاذنا فخر الائمۃ البدیع و قول من قال لا یجب لان الکفار لا یخاطبون بالشرائع غیر سدید فان سبب الغسل ارادۃ الصلاۃ و زمان ارادتھا مسلم و لان صفۃ الجنابۃ مستدامۃ بعد الاسلام فیعطی لھا حکم الانشاء حتی لو انقطع دم الکافرۃ ثم اسلمت لا غسل علیھا لتعذر استدامۃ الانقطاع اھ زاھدی۔ فلذا لو اسلمت حائضا ثم طھرت وجب علیھا الغسل“
ترجمہ: مصنف کا قول کہ ایک روایت میں اس پر غسل واجب ہے یعنی یہ قول ظاہر الروایہ ہے۔ ہمارے استاذ فخر الائمہ بدیع نے یہ فرمایا اور جس نے یہ کہا کہ اس پر غسل واجب نہیں ہو گا، اس وجہ سے کہ کفار شرعی احکام کے مخاطب نہیں ہیں، یہ درست نہیں، کیونکہ غسل کا سبب نماز کا ارادہ کرنا ہےاور اس کے ارادۂ نماز کا زمانے میں وہ مسلمان ہے اور اس وجہ سے(بھی) کہ صفتِ جنابت اسلام کے بعد بھی باقی رہنے والی ہے، تو اسے انشاء (نئے سرے سے جنابت طاری ہونے) کا حکم دیا جائے گا حتی کہ اگر کافرہ عورت کا خون رک جائے، پھر وقہ اسلام لائے، تو اس پر غسل لازم نہیں ہو تا، اسوجہ سے کہ انقطاع کا دوام ممکن نہیں الخ زاہدی۔ پس اسی وجہ سے اگر حائضہ اسلام قبول کرے، پھر پاک ہو، تو اس پر غسل لازم ہوتا ہے۔ (تبیین الحقائق، ج، 1 ص19، مطبوعہ القاھرۃ )
ائمہ احناف سے اسی قول کی تصحیح منقول ہے۔ محیط برہانی میں ہے:
”والكافر إذا أجنب قبل الإسلام فقد ذكرنا أن في وجوب الغسل عليه اختلاف المشايخ، وذكرنا أن الصحيح أنه يجب“
ترجمہ: اسلام قبول کرنے سے پہلے کافر پر غسل لازم تھا، تو ہم نے ذکر کیا کہ اس پر غسل واجب ہونے کے بارے میں مشائخ کا اختلاف ہے اور ہم نے ذکر کیا کہ صحیح یہ ہے کہ اس پر غسل واجب نہیں ہو گا۔ (المحیط البرھانی، ج 1، ص 88، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے اسی وجوب والے قول کو بصیغۂ ”اصح“ درج کیا ہے۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ اس حوالے سے اختلاف نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”والاصح وجوبہ لبقاء صفۃ الجنابۃ السابقۃ بعد الاسلام“
ترجمہ: اوراصح یہ ہے کہ اسلام لانے کے بعد جنابتِ سابقہ کی صفت کے باقی ہونے کی وجہ سے غسال واجب ہو گا۔ (فتح القدیر، ج1، ص 63، دار الفکر، بیروت )
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Pin-7653
تاریخ اجراء: 30 ربیع الاول 1447ھ/24ستمبر 2025ء