دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
معلوم کرنا تھا کہ عورت مدنی پنج سوره کو ناپاکی کی حالت میں ہاتھ لگا سکتی ہے یا نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
ناپاکی کی حالت میں مدنی پنج سورہ کو بلا حائل چھونا جائز ہے کہ یہ قرآن کے حکم میں نہیں ہے، کیونکہ اس میں قرآن کے علاوہ باقی چیزیں قرآن سے زیادہ ہیں، ہاں! مکروہ وناپسندیدہ ہے۔ البتہ! پنج سورہ کے وہ صفحات جن پر آیات اور ان کا ترجمہ لکھا ہوا ہے، یا صرف آیات لکھی ہیں، تو اگر ان میں اکثرحصہ آیات و ترجمہ یا آیات کا ہے یا وہاں صرف آیات و ترجمہ یا صرف آیات ہی ہیں، اور ان کے علاوہ دوسرا کوئی مضمون تحریر نہیں (اب اگرچہ صرف ایک آیت لکھی ہے اور بقیہ صفحہ خالی ہے یا دوسرا مضمون معمولی مقدار میں لکھا ہے، جو آیت کی مقدار سے کم ہے) تو ایسی صورت میں اس صفحےکو آگے، پیچھے، اوپر، نیچے، کسی بھی مقام سے ناپاکی کی حالت میں یا بے وضو ہونے کی حالت میں چھونا، جائز نہیں ہے۔
اور اگر اکثر حصہ غیر آیات اور غیر ترجمہ ہے اور کم حصے پر آیات و ترجمہ یا صرف آیات ہیں، تو اب جتنے حصے پر آیات و ترجمہ یا آیات ہیں، اس کو یا اس کے بالمقابل پشت کے حصے کو ناپاکی کی حالت میں یابے وضوہونے کی حالت میں چھونا، جائز نہیں ہے، اس کے علاوہ حصے کوچھوسکتے ہیں۔ رد المحتار میں ہے
يكره مس كتب التفسير و الفقه و السنن لأنها لا تخلو عن آيات القرآن
ترجمہ: (بے وضو، جنبی یا حائضہ کو) فقہ و تفسیر و حدیث کی کتب (بلا حائل) چھونا مکروہِ تنزیہی ہے، کیونکہ یہ آیاتِ قرآنیہ سے خالی نہیں ہوتیں۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 353، مطبوعہ: کوئٹہ)
الدر المختار و رد المحتار میں ہے
و قد جوز أصحابنا مس کتب التفسیر للمحدث و لم یفصلوا بین کون الأکثر تفسیرا أو قرآنا و لو قیل بہ (بأن یقال إن کان التفسیر أکثر لا یکرہ و إن کان القرآن أکثر یکرہ) اعتبارا للغالب لکان حسنا (و بہ یحصل التوفیق بین القولین) (ملتقطا من الدر و مزیدا من ردالمحتار بین الھلالین)
ترجمہ: ہمارے علما نے بے وضوکے لیے کتب تفسیر کو چھونا، جائز قرار دیا ہے اور اس میں تفسیر یا قرآن کے زیادہ ہونے کی تفصیل بیان نہیں کی۔ البتہ اگر اس تفصیل کا قول کیا جائے یعنی یوں کہا جائے کہ اگر تفسیر زیادہ ہے تو پھر مکروہ نہیں اور اگر قرآن زیادہ ہے تو پھر مکروہ ہے، غالب کا اعتبار کرتے ہوئے تو بہت اچھا ہے۔ (علامہ شامی فرماتے ہیں) اس تفصیل سے دونوں اقوال میں تطبیق پیدا ہو جاتی ہے۔ (الدر المختار و رد المحتار، کتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 353، مطبوعہ: کوئٹہ)
الجوہرۃ النیرہ، اللباب شرح الکتاب میں ہے:
(و النظم للاول) لا يجوز له مس شيء مكتوب فيه شيء من القرآن من لوح أو درهم أو غير ذلك إذا كان آية تامة۔
ترجمہ: جس تختی، درہم وغیرہ میں قرآن کی ایک مکمل آیت لکھی ہو تو اُس تختی، درہم وغیرہ کو ناپاکی کی حالت میں چھونا، جائز نہیں۔ (الجوھرۃ النیرۃ، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 31، المطبعة الخيرية)
خزانۃ المفتین، محیطِ برہانی، مبسوط، بنایہ وغیرہ کتبِ فقہیہ میں اس متعلق مذکور ہے:
(و النظم للاول) و الدرهمُ المكتوبُ عليه سورةٌ من القرآن حكمُه حكمُ المصحف۔۔۔۔ و اللوحُ المكتوبُ عليه آيةٌ تامّةٌ کالمصحف
ترجمہ: ایسے دراہم، جن پر قرآنی سورت لکھی ہو تو اس کا حکم مصحف والا ہے۔ اور ایسی تختی، جس پرایک پوری آیت لکھی ہو،وہ مصحف کے حکم میں ہے۔(خزانۃ المفتین، کتاب الصلاۃ، ص 702، رسالۃ دکتورۃمحققۃ، ملتقطاً)
بہار شریعت میں ہے "کاغذ کے پرچے پر کوئی سورہ یا آیت لکھی ہواس کا بھی چھونا حرام ہے۔" (بہار شریعت، ج 01، حصہ 02، ص 379، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
امامِ اہل سنّت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ تحریرفرماتے ہیں: "کتاب یا اخبار جس جگہ آیت لکھی ہے خاص اُس جگہ کو بلاوضو ہاتھ لگانا، جائز نہیں، اُسی طرف ہاتھ لگایا جائے جس طرف آیت لکھی ہے، خواہ اس کی پشت پر، دونوں ناجائز ہیں باقی ورق کے چھونے میں حرج نہیں۔" (فتاویٰ رضویہ، جلد 4، صفحہ 366، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
بہار شریعت میں ہے ”قرآن کا ترجمہ فارسی یا اردو یا کسی اور زبان میں ہو اس کے بھی چھونے اور پڑھنے میں قرآنِ مجید ہی کا سا حکم ہے ۔۔۔ ان سب کو فقہ و تفسیر وحدیث کی کتابوں کا چھونا مکروہ(تنزیہی) ہے اور اگر ان کو کسی کپڑے سے چُھوا اگرچہ اس کو پہنے یا اوڑھے ہوئے ہو، تو حَرَج نہیں مگرمَوْضَع آیت پر ان کتابوں میں بھی ہاتھ رکھنا حرام ہے۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 327، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4434
تاریخ اجراء: 20 جمادی الاولٰی 1447ھ / 12 نومبر 2025ء