مہندی کے اوپر سے سر کا مسح کرنا کیسا؟

مہندی کے اوپر سے سر کا مسح کرنے کا حکم

دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

سر پر مہندی لگائی ہو تو مسح کرنے سے مسح ہوگا یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

بالوں پر فقط مہندی کا رنگ ہو، تو یہ وضو و غسل سے مانع نہیں، لہذاایسی صورت میں سرکامسح کرنے سے مسح ہوجائے گا۔

البتہ! اگر مہندی کا لیپ بالوں پر موجود ہو، تواگرکم ازکم سر کا چوتھائی حصہ مہندی سے خالی ہوتوصرف اس پرمسح کرلے(اورہاتھ کومہندی کے اوپرسے نہ گزارے کہ اس طرح ہوسکتاہے مہندی کارنگ پانی میں شامل ہوجائے اور وہ مائے مطلق نہ رہے کہ اس صورت میں پھرمسح درست نہیں ہوگا) اور اگر سارے سر پر مہندی ہے یا جتنامہندی سے خالی ہے، وہ چوتھائی سے کم ہے، تواب اگر مہندی کالیپ اتنا گاڑھا ہے کہ نیچے سرپرپانی نہیں پہنچے گا، تواب مہندی کے اوپرسے مسح کرنے سے مسح نہیں ہوگا۔

فتاوی عالمگیری، الجوھرۃ النيرة اور تبیین الحقائق میں ہے

(واللفظ للاول) "والخضاب إذا تجسد ويبس يمنع تمام الوضوء و الغسل"

 ترجمہ: اور مہندی جب جرم دار ہوجائے اور سوکھ جائے تو وہ وضو اور غسل کے پورا ہونے سے مانع ہوگی۔ (فتاوی عالمگیری، جلد1، صفحہ4، مطبوعہ: بیروت)

مہندی پر مسح کرنے کے متعلق حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے

”(قولہ  ولو جرمہ) أی الحناء لکن لا بد أن یصل الماء تحتہ واما اذا لم یصل لاتصح الطھارۃ“

 ترجمہ: مصنف کا قول اگر اس کا جرم ہو یعنی مہندی کا لیکن ضروری ہے کہ پانی نیچے تک پہنچ جائے بہر حال جب پانی نہ پہنچے تو پھر طہارت درست نہیں۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، کتاب الطھارۃ، جلد1، صفحہ88، مطبوعہ: کوئٹہ)

سر پر مہندی لگی ہو تو مسح کے لیے پانی کا نہ بدلنا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے ”سر پر مہندی یا کوئی خضاب یا ضماد لگا ہوا ہے اور مسح کرتے میں ہاتھ اس پر گزرتا ہوا پہنچا یوں کہ یا تو وہ ضماد و خضاب رقیق بے جرم مثلِ روغن ہے تو اُسی کی جگہ مسح کیا، وہ جرم دار ہے تو اس کے باہر چہارم سر کی قدر مسح کیا مگر ہاتھ اس پر ہوتا گزرا، اگر اس گزرنے میں ہاتھ کی تری میں اُس خضاب و ضماد کے اجزاء ایسے مل گئے کہ اب وہ تری پانی نہ کہلائے گی تو مسح جائز نہ ہوگا ورنہ جائز۔۔۔ وجیز امام کردری فصل مسح میں ہے:

"مسحت علی الخضاب ان اختلطت البلۃ بالخضاب حتی خرجت عن کونھا ماء مطلقا لم یجز اھ اقول ولا بدمن تقیید مفھومہ بما ذکرت"

 )ترجمہ: خضاب پر مسح کیا اگر تری خضاب سے مل گئی یہاں تک کہ ماءِ مطلق ہونے سے خارج ہوگئی تو اُس سے مسح جائز نہیں اھ۔ میں کہتا ہوں اس کے مفہوم کو مقید کرنا ضروری ہے اس قید کے ساتھ جو میں نے ذکر کی ہے۔( (فتاوی رضویہ، جلد2، صفحہ622، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب : مولانا محمد فرحان افضل عطاری مدنی

فتوی نمبر : WAT-4427

تاریخ اجراء : 21جمادی الاولی1447 ھ/13نومبر2025 ء