دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نماز کے دوران حیض کا احساس ہو، لیکن یقین نہ ہو، ایسی صورت میں نماز پڑھ لی، تو کیا کرے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
عورت حائضہ تب شمار ہوتی ہے، جب خونِ حیض فرجِ خارج (Outer vagina) میں آ جائے، پس خون اترتا محسوس ہوا، مگر ابھی فرجِ داخل (Inner vagina) ہی میں ہے، فرج خارج میں ظاہر نہ ہوا، تو حائضہ نہیں، یوں ہی محض شک کا ہونا، یقین کو زائل نہیں کرتا، لہذا پوچھی گئی صورت میں نماز ہو گئی، جبکہ نماز کے فوراً بعد دیکھنے پر خون دکھائی نہ دیا ہو کہ محض محسوس کرنا کافی نہیں، بلکہ خون کا نکلنا شرط ہے۔ ہاں اگر خون دکھائی دیا اور یہ واضح ہے کہ جس وقت محسوس ہورہا تھا، اسی وقت خارج ہوا ہے،تو نماز نہ ہوئی، پس اس صورت میں وقتی فرض نماز تھی، تو معاف ہے، اور نفل نماز تھی، تو اس کی قضا لازم ہے۔
علامہ ابن عابدین سید محمد امین بن عمر شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1252ھ / 1836ء) لکھتے ہیں:
لو أحست بنزوله إلى الفرج الداخل ولم يخرج منه، فليس بحيض في ظاهر الرواية، و به يفتى
ترجمہ: اگر عورت کو خون کے فرج داخل کی طرف اترنے کا احساس ہو، (مگر) وہ اس سے باہر نہ نکلے، تو ظاہر الروایہ کے مطابق یہ حیض نہیں ہے اور اسی پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔ (منهل الواردين على ذخر المتأهلين، المقدمة، النوع الأول في تفسير الألفاظ المستعملة، صفحہ 122، دار الفکر، بیروت)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
ان الشرط الخروج دون الإحساس
ترجمہ: (خونِ حیض کا)نکلنا شرط ہے، نہ کہ صرف محسوس کرنا۔ (منهل الواردين على ذخر المتأهلين، الفصل الأول بيان ابتداء ثبوت الدماء...الخ، صفحہ 172، دار الفکر، بیروت)
امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) الحدیقہ الندیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
و الیقین لایزول بالشک والظن بل یزول بیقین مثلہ و ھذا اصل مقرر فی الشرع منصوص علیہ فی الاحادیث
ترجمہ: اور یقین شک اور گمان سے زائل نہیں ہوتا، بلکہ یقین اپنے جیسے یقین کے ساتھ زائل ہوتا ہے، اور یہ شریعت میں مسلمہ اصول ہے جس پر احادیث میں نص موجود ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 4، صفحہ 477، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1367ھ / 1948ء) لکھتے ہیں: ”حیض اس وقت سے شمار کیا جائے گا کہ خون فرجِ خارج میں آگیا، تو اگر کوئی کپڑا رکھ لیا ہے، جس کی وجہ سے فرجِ خارج میں نہیں آیا، داخل ہی میں رُکا ہوا ہے، تو جب تک کپڑا نہ نکالے گی، حیض والی نہ ہو گی، نمازیں پڑھے گی، روزہ رکھے گی ۔۔۔نماز پڑھتے میں حیض آگیا، یا بچہ پیدا ہوا، تو وہ نماز معاف ہے، البتہ اگر نفل نماز تھی، تو اس کی قضا واجب ہے۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 373 و 380، مکتبة المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-896
تاریخ اجراء: 01 ربيع الآخر 1447ھ/25 ستمبر 2025ء