حیض کی حالت میں نیاز پکانا کیسا؟

عورت حیض کی حالت میں نذر و نیاز کا کھانا پکا سکتی ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا عورت حیض کی حالت میں نیاز پکاسکتی ہے اور نیاز کو ہاتھ لگاسکتی ہے؟ نیز نیاز پر خود ختم دے سکتی ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

حیض و نفاس کی حالت میں عورت جس طرح روز مرہ کاکھانا پکا سکتی ہے، اسی طرح نیاز بھی پکاسکتی ہے۔ یونہی نیاز کے پکے ہوئے کھانے کو ہاتھ لگانے یا تقسیم کرنے میں بھی کوئی حرج یا بے ادبی نہیں۔ البتہ اگر ایسی عورت نیاز پکانے، اُسے ہاتھ لگانے، تقسیم کرنے سے پہلے ادب کی خاطر وضو کرلے اور پھر یہ سارے کام کرے تو یہ مستحب عمل ہے کہ تعظیم و ادب جتنا زیادہ ہو، اتنا ہی اچھا ہے۔

باقی نیاز پر"ختم شریف" پڑھنے میں چونکہ سورۂ فاتحہ اور قرآنِ پاک کی مختلف آیات پڑھ کر اُن کا ایصال ثواب کیا جاتا ہے، جبکہ حیض و نفاس والی عورت کو قرآن کریم کی تلاوت کرنا، ناجائز و حرام ہے، لہذا ایسی عورت نیاز پر خود ختم شریف نہیں پڑھ سکتی۔

حیض و نفاس والی عورت اپنے ہاتھوں سے نیاز پکاسکتی ہے، اُسے ہاتھ بھی لگاسکتی ہے، شرعاً اس کی کوئی ممانعت نہیں، چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ ہے:

عن عائشة قالت: قال لي رسول الله صلى اللہ عليه وسلم: «ناوليني الخمرة من المسجد»، قالت فقلت: إني حائض، فقال: «إن حيضتك ليست في يدك»

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: مجھے مسجد سے چٹائی اٹھادو، فرماتی ہے کہ میں نے عرض کیا: میں حیض کی حالت میں ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ (صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 244، رقم الحدیث: 11 - (298)، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

اس حدیث کی شرح میں امام ابو عمر ا بن عبد البر مالکی علیہ الرحمۃ’’ الاستذکار‘‘ میں فرماتے ہیں:

 و فيها دليل على أن كل عضو منها (ليست فيه الحيضة فهو في الطهارة بمعنى أنه يبقى على ما كان ذلك العضو عليه) قبل الحيضة و دل على أن الحيض لا حكم له في غير موضعه الذي أمرنا بالاجتناب له من أجله

ترجمہ: اور اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کے ہر اُس عضو کے بارے میں جس میں حیض کا خون نہیں ہوتا، وہ طہارت ہی پر رہتا ہے، یعنی وہ عضو حیض سے پہلے جس( پاکی کی) حالت میں تھا، اسی حالت پر باقی رہتا ہے۔ اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بیشک حیض کا حکم اس (مخصوص) جگہ میں جس کے سبب ہمیں اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے، کے علاوہ جسم کے کسی حصے پر نہیں۔ (الاستذکار، جلد 1، صفحہ 321،دار الكتب العلمية، بيروت)

سیدی اعلیٰ حضر ت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہواکہ کیا حیض والی عورت کی روٹی پکی ہوئی کھانا جائز ہے یا نہ، اور اپنے ساتھ اس کو روٹی کھلانا جائز ہے یا نہ؟

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا: ”اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بھی جائز، اُسے اپنے ساتھ کھلانا بھی جائز۔ ان باتوں سے احتراز یہود و مجوس کا مسئلہ ہے۔

و قد کان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم یدنی راسہ الکریم لأم المؤمنین الصدیقۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا وھی فی بیتھا و ھو صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم معتکف فی المسجد لتغسلہ فتقول أناحائض فیقول حیضتک لیست فی یدک۔

سرکارِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم اپنا سر مبارک دُھلوانے کےلئے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قریب کرتے تھے اس وقت آپ گھر میں ہوتیں اور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ وآلہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف ہوتے اُم المومنین عرض کرتیں: میں حائضہ ہوں۔ آپ فرماتے: حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 4، صفحہ 355- 356، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاوی جامعہ اشرفیہ میں ہے: ’’حیض کی حالت میں حائضہ عورت جس طریقے سے عام کھانا پکاسکتی ہے، اسی طریقہ سے نیاز فاتحہ کیلئے بھی کھانا شیرینی پکاسکتی ہے۔ حیض کی وجہ سے جو نجاست عورت پر طاری ہوتی ہے وہ حکمی ہے حقیقی نہیں، اس کا ظاہر جسم پاک اور صاف رہتا ہے اس کو حدیث میں فرمایا گیا:

إن حيضتك ليست في يدك

تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں۔ اس کا مفاد یہی ہے کہ ہاتھ پاک ہے تو جیسے ہاتھ پاک ہے اسی طرح اس کا سارا ظاہر جسم پاک ہے البتہ موضع نجاست خون لگنے سے ناپاک ہے پھر اگر اسے دھو لیا جائے کہ خون زائل ہو جائے تو وہ بھی پاک (ہوجائے گی)‘‘۔ (فتاویٰ جامعہ اشرفیہ، جلد 5، صفحہ 89، مجلس فقھی، جامعہ اشرفیہ، مبارک پور)

حیض و نفاس والی عورت نیاز پکانے، اُسے ہاتھ لگانے، تقسیم کرنے سے پہلے وضو کرلے تو یہ مستحب عمل ہے،چنانچہ حدیث اور اس کی شرح ملاحظہ ہو۔ صحیح مسلم کی حدیث پاک ہے:

عن أبي هريرة، أنه لقيه النبي صلى اللہ عليه وسلم في طريق من طرق المدينة، و هو جنب فانسل فذهب فاغتسل، فتفقده النبي صلى اللہ عليه و سلم فلما جاءه قال: «أين كنت يا أبا هريرة» قال: يا رسول اللہ، لقيتني وأنا جنب فكرهت أن أجالسك حتى أغتسل، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم: سبحان اللہ إن المؤمن لا ينجس

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کےکسی راستے میں ملے،اور وہ (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ) جنبی تھے،تو وہ آپ سے جدا ہوگئے اور وہاں سے چلے گئے اور غسل کیا، تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ کو تلاش کیا،پھر جب وہ آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ہریرہ ! تم کہاں تھے؟ تو فرمایا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! آپ مجھے ملے تھے تو اس وقت میں جنبی تھا، تو میں نے ناپسند سمجھا کہ میں اس حالت میں آپ کے پاس بیٹھوں، یہاں تک کہ میں غسل کرلوں، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سبحان اللہ، مؤمن نجس نہیں ہوتا۔ (صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 283، رقم الحدیث: 371، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

اس حدیث پاک کی شرح میں علامہ احمد بن علی بن حجر مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ ’’فتح الباری شرح صحیح البخاری‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں:

و في هذا الحديث استحباب الطهارة عند ملابسة الأمور المعظمة و استحباب احترام أهل الفضل و توقيرهم و مصاحبتهم على أكمل الهيئات

ترجمہ: اور اس حدیث میں تعظیم والے امور کے ساتھ ملابست (یعنی میل جول) كے وقت طہارت کا مستحب ہونا (ثابت ہوتا) ہے، اور اہل فضل کا احترام اور ان کی توقیر کرنے اور اچھی حالت و کیفیت کے ساتھ ان کی صحبت اختیار کرنے کا استحباب (ثابت ہوتا) ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری، جلد 1، صفحہ 333، دار المعرفة، بيروت)

حیض ونفاس کی حالت میں قرآن کی تلاوت جائز نہیں، چنانچہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:

”و یمنع (قراءة قرآن) بقصده“ ملخصاً

ترجمہ: حیض و نفاس کی حالت میں قصداً قرآن کی قراءت کرنا ممنوع ہے۔ (تنویر الابصار مع در مختار، جلد 1، صفحہ535، دارالمعرفۃ، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-916

تاریخ اجراء: 15 ربیع الاخر 1446ھ /09 اکتوبر 2025ء