پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پانی کب مستعمل ہوتا ہے؟

بے دُھلا ہاتھ پانی میں ڈالتے ہی پانی مستعمل ہوگا یا ہاتھ پانی سے باہر نکالنے پر؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

اگر کسی بے وضو شخص نے ٹپ میں موجود پانی میں انگلی ڈالی تو وہ پانی انگلی ڈالتے ہی مستعمل ہو جائے گا یا باہر نکالنے پر ہو گا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

بے وضو یابے غسلےشخص نے بے دھلا ہاتھ یاانگلی بلاضرورت قلیل(دہ دردہ سے کم) غیرجاری پانی میں ڈالی توجب تک ہاتھ یاانگلی باہرنہیں نکالے گا، اس وقت تک پانی مستعمل نہیں ہوگا، کیونکہ پانی کے مستعمل ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عضو کو لگنے کے بعد اس سے جدا ہو جائے، لگنے کے بعدجیسے ہی جدا ہو گا تو پانی مستعمل ہو جائے گا، اس سے پہلے یعنی جب تک عضو کے ساتھ متصل ہے، مستعمل نہیں ہوگا۔

در مختار میں ہے

یدخل یدہ او رجلہ فی حب لغیر اغتراف و نحوہ فانہ یصیر مستعملاً

ترجمہ: اپنا ہاتھ یا پاؤں گڑھے میں ڈالا، (اگرچہ) چلو بھرنے وغیرہ کے لیے نہ ہو تو (بھی) پانی مستعمل ہو جائے گا۔

اس کے تحت رد المحتار میں ہے

(قولہ یصیر مستعملا) المراد ان ما اتصل بالعضو و انفصل عنہ مستعمل

 ترجمہ: (شارح کا قول: پانی مستعمل ہو جائے گا، اس سے) مراد یہ ہے کہ جو پانی عضو کے ساتھ لگا اور پھر جدا ہو گیا تو وہ مستعمل ہے۔ (رد المحتار، جلد 1، صفحہ 200، مطبوعہ: بیروت)

مستعمل پانی کی تعریف بیان کرتے ہوئے امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”مائے مستعمل وہ قلیل پانی ہے جس نے یا تو تطہیر نجاست حکمیہ سے کسی واجب کو ساقط کیا یعنی انسان کے کسی ایسے پارہ جسم کو مس کیا جس کی تطہیر وضو یا غسل سے بالفعل لازم تھی یا ظاہر بدن پر اُس کا استعمال خود کار ثواب تھا اور استعمال کرنے والے نے اپنے بدن پر اُسی امر ثواب کی نیت سے استعمال کیا اور یوں اسقاط واجب تطہیر یا اقامت قربت کر کے عضو سے جُدا ہوا اگرچہ ہنوز کسی جگہ مستقر نہ ہوا بلکہ روانی میں ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 2، صفحہ 43، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاوی رضویہ میں ہے "بحرمیں محیط رضوی سے ایک اورصورت لکھی کہ وہ دردہ سے کم حوض ہے اورپانی ڈوراورکوئی برتن پا س نہیں اگر اس میں نہاتاہے پانی بھی خراب ہوتا ہے اور یہ بھی طاہرنہ ہوگا ناچار تیمم کرے۔۔۔ اقول: مگر یہ غیر صحیح پر مبنی ہے صحیح و معتمد یہ ہے کہ اس کا غسل اتر جائےگا اور پانی مستعمل ہوجائےگا

لعدم الاستعمال قبل الانفصال و ھی مسالۃ البئرجحط و قد قال فی البحرالمذھب المختار فی ھذہ المسالۃ ان الرجل طاھر و الماء طاھر غیر طھور

 ترجمہ: کہ جسم سے جدا ہونے سے پہلے مستعمل ہونانہیں پایا گیا اور یہ کنویں کا مسئلہ جحط ہے اور اس کے متعلق بحر میں فرمایا: اس مسئلے میں مختار یہ ہے کہ مردپاک ہے اورپانی پاک ہے لیکن پاک کرنے والا نہیں ( یعنی مستعمل)۔ (فتاوی رضویہ، جلد 2، صفحہ 43، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاوی رضویہ میں ہے "بے ضرورت چلولینے یاہاتھ ڈالنے سے پانی مستعمل ہوجائے گا۔" (فتاوی رضویہ، جلد2، صفحہ 43، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4343

تاریخ اجراء: 24 ربیع الآخر 1447ھ / 18 اکتوبر 2025ء