
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ زخم سے دن میں کئی دفعہ خون نکل کر کپڑوں پر لگ جاتا ہے کبھی زیادہ ہوتا ہے کبھی کم ہوتا ہے لیکن اس سے کپڑوں پر دھبے لگ جاتے ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس خون کے نکلنے کی وجہ سے کیا مجھے وضو دوبارہ کرنا ہوگا اور جن کپڑوں پر وہ خون لگا ہو کیا اس میں نماز ہوجائے گی یا مجھے کپڑے تبدیل کرنے ہوں گے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
زخم سے جو خون نکل کر کپڑوں پر لگا اگر اس کے متعلق غالب گمان یہ ہے کہ اس میں بہنے کی صلاحیت تھی یعنی کپڑے پر نہ لگتا تو یہ خون زخم کے سر سے ابھر کر ڈھلک جاتا تو ا س صورت میں وہ خون نجس ہے جس سے وضو ٹوٹ جائے گا کپڑے میں درہم سے زیادہ لگ جائے تو ان کپڑوں میں نماز نہ ہوگی،درہم کے برابر لگے مکروہ تحریمی ہوگی جس کا دوبارہ پڑھنا واجب ہے اور درہم سے کم لگے تو خلافِ سنت ہوگی دوبارہ پڑھنا بہتر ہے۔
اور اگر خون کے متعلق مذکورہ گمان غالب نہ ہو تو وہ پاک ہے نہ اس سے وضو جائے گا نہ کپڑے ناپاک ہوں گے اور ان کپڑوں میں بلاکراہت نماز ادا ہوجائے گی۔
تفصیل و دلائل درج ذیل ہیں:
زخم وغیرہ سے نکلنے والا خون اس وقت نجس ہوتا ہے جب اس میں اتنی قوت ہو کہ زخم کے سر سے ابھر کر ڈھلک جائے ورنہ وہ نجس نہیں اور وضو اسی سے ٹوٹتا ہے جو نجس ہوجبکہ جو نجس نہ ہو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ اب کپڑوں میں لگنے والے خون میں قوتِ سیلان تھی یا نہیں؟ اس معاملہ میں شرع نے ظنِ غالب کو معیار بنایا ہے۔ اگر غالب گمان یہ ہو کہ بہنے کی صلاحیت تھی تو وہ خون نجس بھی ہے اور وضو توڑنے والا بھی، اور اگر یہ غالب گمان نہ ہو پھر چاہے شک ہو یا وہم، تو نہ وہ نجس ہے نہ اس سے وضو ٹوٹے گا۔
محىط البرھانی میں ہے:
و إذا مسح الرجل الدم عن رأس الجراحة ثم خرج ثانيًا، فمسحه ينظر: إن كان ما خرج بحال لو تركه سال أعاد الوضوء، وإن كان بحيث لو تركه لا يسيل لا ينقض الوضوء، ولا فرق بين أن يمسحه بخرقة أو أصبع وكذلك إذا وضع عليه قطنة حتى ينشف ثم صعد ففعل ثانيًا وثالثًا وإنه يجمع جميع ما ينشف، فإن كان بحيث لو تركه سال جعل حدثًا، وإنما يعرف هذا بالاجتهاد و غالب الظن
ترجمہ: اگر کسی شخص نے زخم کے سر سے خون صاف کیا پھر دوبارہ خون نکلا تو اس نے پھر صاف کرلیا ، غور کیا جائے گا: جو خون نکلا اگر ایسا ہو کہ وہ صاف نہ کرتا تو بہہ جاتا اس صورت میں وضو لوٹائے گا اور اگر ایسا ہو کہ اگر صاف نہ کرتا تو نہ بہتا، تو وضو نہ جائےگا، اس میں کوئی فرق نہیں کہ کپڑے سے صاف کرے یا انگلی سے، اسی طرح اگر اس زخم پر روئی رکھی جس نے خون جذب کر لیا پھر خون دوبارہ سہ بارہ اُبھرا اور اس نے یہی کیا، تو جتنا جذب کیا اسے جمع کیا جائے گا، اگر ایسا ہو کہ چھوڑے رکھتا تو بہہ جاتا ایسے خون کو حدث قرار دیا جائے گا، اور اس بات کی معرفت (کہ یہ بہنے والا تھا یا نہیں) خوب غور و فکر اور گمان غالب سے حاصل کی جائےگی۔(محیط البرھانی، ج 1، ص 60، دار الكتب العلمية، بيروت(
امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
و لو ربط الجرح فنفذت البلۃ الی طاق لاالٰی الخارج نقض و یجب ان یکون معناہ اذا کان بحیث لولا الربط سال لان القمیص لوتردد علی الجرح فابتل لاینجس مالم یکن کذلك لانہ لیس بحدث ولو اخذہ من راس الجرح قبل ان یسیل مرۃ فمرۃ ان کان بحال لوترکہ سال نقض والا لا، و فی المحیط:حدالسیلان ان یعلو و ینحدر
ترجمہ: اور اگر زخم پر پٹی باندھی پھر تری پٹی کی تہہ تك نفوذ کر آئی اگرچہ باہر نہ نکلی تو بھی وضو جاتا رہا، ضروری ہے کہ اس کا معنی یہ ہو کہ ایسی صورت رہی ہو کہ اگر پٹی نہ ہوتی تو خون بہہ جاتا اس لئے کہ کُرتا اگر زخم پر بار بار لگ کر تر ہو گیا تو نجس نہ ہو گا جب تك (تری) بہنے کے قابل نہ ہو کیونکہ وہ حدث نہیں اور اگر بہنے سے پہلے اسے سرِ زخم سے بار بار صاف کیا، اگر ایسی حالت رہی ہو کہ چھوڑ دیتا تو بہہ جاتا تو وضو ٹوٹ گیا، ورنہ نہیں اور محیط میں ہے کہ بہنے کی تعریف یہ ہے کہ اوپر ابھر کر نیچے ڈھلکے۔ (فتاوی رضویہ، ج1، ص373، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ”مذہب صحیح ومعتمد میں جو حدث نہیں وہ نجس بھی نہیں، ولہٰذا اگر خارش کے دانوں پر کپڑا مختلف جگہ سے بار بار لگا اور دانوں کے منہ پر جو چپك پیدا ہوتی ہے جس میں خود باہر آنے اور بہنے کی قوت نہیں ہوتی اگر دیر گزرے تو وہ وہاں کی وہیں رہے گی اُس چپك سے سارا کپڑا بھر گیا ناپاك نہ ہوگا یہی حالت خو ن کی ہے جبکہ اُس میں قوتِ سیلان نہ ہو یعنی ظنِ غالب سے معلوم ہوا کہ اگر کپڑا نہ لگتا اور اُس کا راستہ کھُلا رہتا جب بھی وہ باہر نہ آتا اپنی جگہ ہی پر رہتا ہاں اگرحالت یہ ہو کہ خون بہنا چاہتا ہے اور کپڑا لگ لگ کر اُسے اپنے میں لے لیتا ہے ،تجاوز نہیں کرنے دیتا یہاں تك کہ جتنا خون قاصدِ سیلان تھا وہ اس کپڑے ہی میں لگ لگ کرپچھ گیا اور بہنے نہ پایا ،تو ضرور وضو جاتا رہے گا اور قدرِ درم سے زائد ہوا، تو کپڑا بھی ناپاك ہوجائے گاکہ یہ صورت واقع میں بہنے کی تھی کپڑے کے لگنے نے اُسے ظاہر نہ ہونے دیا۔“ (فتاوی رضویہ، ج 1، ص 370، رضا فاؤنڈیشن، لاہور(
اور شک و وہم کی صورت میں وضو نہ ٹوٹے گا اس لیے کہ اصل اشیاء میں طہارت ہے اور وہ خون نجس ہے یا نہیں اس کی دلیل قائم نہیں تو اصل پر حکم ہوگا اور وہ پاک قرار پائے گا، امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”اگر دلائل میں تعارض بھی ہو تو مرجع اصل ہے۔۔
و فی الطریقۃ والحدیقۃ:(ان الطھارۃ فی الاشیاء اصل) لان اللہ تعالٰی لم یخلق شیأ نجسا من اصل خلقتہ (و) انما (النجاسۃ عارضۃ)۔
(فتاوی رضویہ، ج4، ص 440، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
فتاوی رضویہ ہی میں ہے: ”طہارت و حلت پر بوجہ اصالت جو یقین تھا اس کا زوال بھی اس کے مثل یقین ہی سے متصور، نرا ظن لاحق، یقین سابق کے حکم کو رفع نہیں کرتا ۔۔۔الاشباہ و النظائر میں ہے:
شک فی وجود النجس فالاصل بقاء الطھارۃ
(ترجمہ:نجس کے وجود میں شک ہو تو اصل طہارت کا باقی ہونا ہے)۔“ (فتاوی رضویہ، ج4، ص 477، 478، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہار شریعت میں ہے:” نَجاستِ غلیظہ کا حکم یہ ہے کہ اگر کپڑے یا بدن میں ایک درہم سے زِیادہ لگ جائے ،تو اس کا پاک کرنا فرض ہے، بے پاک کیے نماز پڑھ لی تو ہو گی ہی نہیں اور قصداً پڑھی تو گناہ بھی ہوا اور اگر بہ نیتِ اِستِخفاف ہے تو کفر ہوا اور اگر درہم کے برابر ہے تو پاک کرنا واجب ہے کہ بے پاک کیے نماز پڑھی تو مکروہ تحریمی ہوئی یعنی ایسی نماز کا اِعادہ واجب ہے اور قصداً پڑھی تو گنہگار بھی ہوا اور اگر درہم سے کم ہے تو پاک کرنا سنّت ہے، کہ بے پاک کیے نماز ہوگئی مگر خلافِ سنّت ہوئی اور اس کا اِعادہ بہتر ہے۔“(بہار شریعت، ج1، حصہ 2، ص389، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0422
تاریخ اجراء: 16 ربیع الاوّل1446ھ/21ستمبر2024ء