کنویں میں مینڈک مر جائے تو اس سے پانی پینا کیسا؟

کنویں میں مینڈک مر جائے، تو اس پانی کو پینا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقہ میں ایک کنواں ہے جس کا پانی ہم پینے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس کنویں میں ایک مینڈک مرا جو دو دن بعد نکالا گیا اور پانی میں رہنے کی وجہ سے پھول بھی گیا ہے۔ پوچھنا یہ تھا کہ اس کنویں کا پانی پینا ہمارے لیے جائز ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرمادیں۔

نوٹ: کنویں میں گر کر مرنے والا مینڈک پانی میں ہی رہنے والا تھا۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اس کنویں کا پانی پینا جائز ہے، کیونکہ اصولِ شرع کے مطابق جو مینڈک پانی میں رہتا ہو یا جس میں بہنے کی مقدار خون نہ ہو، اس کے پانی میں مرنے اور پھولنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا، البتہ مینڈک اگر کنویں میں پھٹ جائے اور اس کے اجزا ریزہ ریزہ ہو کر پانی میں یوں شامل ہوجائیں کہ جدا نہ ہوسکیں، تو اب اس کا حرام گوشت پانی میں مل جانے کی وجہ سے وہ پانی پینا حرام ہے۔

یاد رہے! مذکورہ حکم پانی میں رہنے والے یاخشکی کےایسے مینڈک، جن میں بہنے کی مقدار خون نہیں ہوتا ان کے متعلق ہے، جبکہ خشکی کے جس مینڈک میں بہنے والا خون ہو، اس کے پانی میں مرنے سے پانی ناپاک ہوجائےگا۔ خشکی اور پانی کے مینڈک کی پہچان یہ ہے، کہ خشکی والے مینڈک کی انگلیوں کے درمیان جھلی نہیں ہوتی، جبکہ پانی والے مینڈک کی انگلیوں کے درمیان جھلی ہوتی ہے۔

جن جانوروں میں بہنے کی مقدار خون نہ ہو، ان کے متعلق کنز العمال، جمع الجوامع، سنن دار قطنی اور سنن الكبری للبیہقی کی حدیث پاک ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا

يا سلمان كل طعام وشراب وقعت فيه دابة ليس لها دم فماتت فيه فهو حلال أكله و شربه و وضوؤه

 ترجمہ: اے سلمان (رضی اللہ تعالی ٰ عنہ) ہر وہ کھانا اور پانی جس میں ایسا جانور گر کر مرجائے جس میں خون نہ ہو تو اس کا کھانا، اس پانی کا پینا اور اس سے وضو کرنا جائز ہے۔ (سنن دار قطنی، باب کل طعام وقت فیہ۔۔۔۔، جلد 1، صفحہ 49، مطبوعہ لبنان)

جو جانور پانی میں رہتے ہوں یا جن میں بہنے کی مقدار خون نہ ہو، ان کے پانی میں مرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ چنانچہ جامع الصغیر میں ہے

عقرب أو نحوها مما لا دم له يموت في الماء فإنه لا يفسد الماء  ضفدع أو نحوه مما يعيش في الماء

ترجمہ: بچھو یا اس طرح کی دیگر چیزیں جن میں خون نہ ہو یا مینڈک اور اس جیسی پانی میں رہنے والی چیزیں پانی میں مرجائیں تو وہ پانی ناپاک نہیں كرتیں۔ (الجامع الصغیر، باب فی النجاسۃ تقع فی الماء، صفحہ 88، مطبوعہ بیروت)

البحر الرائق میں ہے

موت ما ليس له نفس سائلة في الماء لا ينجسه كالبق و الذباب و الزنابير و العقرب و نحوها ثم قال و موت ما يعيش في الماء لا يفسده كالسمك و الضفدع

ترجمہ: جن میں بہنے والا خون نہ ہو جیسے کھٹمل، مکھی، بھڑ اور بچھو وغیرہ ان کی موت پانی کو ناپاک نہیں کرتی اور وہ چیزیں جو پانی میں رہتی ہوں اور پانی میں ہی مرجائیں تو پھر بھی پانی نجس نہیں ہوگا جیسا کہ مچھلی اورمینڈک وغیرہ۔ (البحر الرائق، باب الماء المستعمل، جلد 1، صفحہ 95، مطبوعہ دار الکتاب اسلامی)

مینڈک پانی میں پھٹ جائے اور اس کے اجزاء پانی میں مل جائیں تو ایسا پانی پینے کے متعلق فتح القدیر، نہر الفائق اور در مختار میں ہے:

و اللفظ للاول: إذا تفتت الضفدع في الماء كرهت شربه لا للنجاسة بل  لحرمة  لحمه و قد صارت أجزاؤه فيه. و هذا تصريح بأن كراهة شربه تحريمية

 ترجمہ: جب مینڈک پانی میں پھٹ جائے تو اس پانی کا پینا مکروہ ہے، اس پانی کے نجس ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کا گوشت حرام ہونے کی وجہ سے، اور تحقیق اس کے اجزاء پانی میں مل گئے ہیں اور یہ واضح ہے کہ پانی پینے کے مکروہ ہونے سے مکروہ تحریمی ہونا مراد ہے۔ (فتح القدیر، باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء۔۔، جلد 1، صفحہ 84، مطبوعہ مصر)

مذکورہ عبارت میں مکروہ تحریمی کے متعلق امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:

اقول الکراھۃ عرف القدماء اعم من الحرمۃ یقولون اکرہ کذا و المعنی احرمہ

ترجمہ: میں کہتا ہوں کراہت کا لفظ متقد مین کے عرف میں حُرمت کو بھی عام ہے، جب وہ فرماتے ہیں میں اس کو مکروہ سمجھتا ہوں، تو مراد یہ ہوتی ہے کہ میں اس کو حرام سمجھتا ہوں۔ (فتاوی رضویہ، جلد 2، صفحہ 559، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

کنویں میں مینڈک مرجانے کے متعلق امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: ”پانی میں مینڈک یا کوئی آبی جانور یا وہ غیر آبی جس میں خون سائل نہ ہو جیسے زنبور، کژدم، مکّھی وغیرہا مرجائے اُس سے وضو جائز ہے اگرچہ ریزہ ریزہ ہو کر اس کے اجزاء پانی میں ایسے مل جائیں کہ جُدا نہ ہوسکیں بشرطیکہ پانی اپنی رقّت پر رہے، ہاں اس حالت میں اس کا پینا یا شوربا کرنا حرام ہوگا جبکہ وہ جانور حرام ہو۔ (فتاوی رضویہ، جلد 2، صفحہ 559، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

فتاوی امجدیہ میں ہے ”پانی کا مینڈک بلکہ خشکی کا بھی جبکہ بہت بڑا نہ ہو جس میں خون سائل ہوتا ہے اگر کنویں میں مرجائے یا مرا ہوا گر جائے بلکہ پھوٹ جائے تو بھی پانی پاک ہے اور اس سے وضو و غسل جائز مگر جب ریزہ ریزہ ہو کر اس کے اجزاء پانی میں مل جائیں تو اس کا پینا حرام ہے اور اگر خشکی کا بڑا مینڈک جس میں خون سائل ہو پانی میں مرجائے تو نجس ہوجائے گا۔ (فتاوی امجدیہ، جلد 1، صفحہ 20، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی)

خشکی کا مینڈک جس میں بہنے والا خون ہواس کے متعلق صدرالشریعہ بدرالطریقہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”جنگل کا بڑا مینڈک جس میں بہنے کے قابل خون ہوتا ہے اس کا حکم چوہے کی مثل ہے۔ پانی کے مینڈک کی انگلیوں کے درمیان جھلی ہوتی ہے اور خشکی کے نہیں۔“ (بھار شریعت، جلد 1، صفحہ 338، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: GUJ-0040

تاریخ اجراء: 01 ربیع الآخر 1447ھ / 25 ستمبر 2025ء