دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نومسلم کے لئے غسل کرنے کا کیا شرعی حکم ہے ؟کیا اسلام قبول کرنے کے بعد اس پر غسل کرنا ضروری ہوتا ہے یا نہیں؟مزید اس کی حکمت بھی ارشاد فرمادیں۔
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قبولِ اسلام کے بعد نومسلم شخص پر ہر صورت میں غسل کرنا لازم نہیں ہوتا، بلکہ اس پر غسل کے لازم ہونے نہ ہونے میں کچھ تفصیل ہے۔
وہ صورتیں جن میں نو مسلم پر غسل فرض ہوتا ہے:
(1) کافرمَرد نے جُنبی (یعنی غسل فرض) ہونے کی حالت میں اسلام قبول کیا۔
(2) کافر ہ عورت نے جنبی (یعنی غسل فرض) ہونے کی حالت میں اسلام قبول کیا۔
(3) کافرہ عورت نے حیض یا نفاس کی حالت میں اسلام قبول کیا۔
(4) اسی طرح اصح قول کے مطابق کافرہ عورت نے حیض یا نفاس کے ختم ہونے کے بعد بغیر غسل کئے اسلام قبول کیا۔
مذکورہ چاروں صورتوں میں اسلام قبول کرنے کے بعد شرعی غسل کرنا فرض ہوگا، کیونکہ یہ سب یعنی جنابت اور حیض ونفاس حکمی ناپاکیاں ہیں جو غسل کے بغیر ختم نہیں ہوتی ہیں ۔نیز قبولِ اسلام کے بعد نو مسلم شخص چونکہ نماز کا مکلف بن جاتا ہے،اور نماز کے لیے طہارت ضروری ہے،لہذا اس وجہ سے غسل فرض ہوتا ہے۔
وہ صورتیں جن میں نو مسلم پر غسل فرض نہیں، البتہ غسل کرلینا مستحب ہے:
(1) کافر مَرد نے اسلام قبول کرنے سےپہلے ہی جنابت سے غسل کرلیا، یا کسی طرح بھی اس کے تمام بدن پر پانی بہہ گیا۔
(2) کافر ہ عورت نے اسلام قبول کرنے سےپہلے ہی جنابت سے غسل کرلیا، یا کسی طرح بھی اس کے تمام بدن پر پانی بہہ گیا۔
(3) کافرہ عورت نے اسلام قبول کرنے سےپہلے ہی حیض یا نفاس سے فارغ ہوکرغسل کرلیا، یا کسی طرح بھی اس کے تمام بدن پر پانی بہہ گیا۔
مذکورہ تینوں صورتوں میں قبولِ اسلام کے بعد پورے بد ن کا غسل کرنا ہرگز فرض نہیں ہوگا، البتہ قبول اسلام کے بعد ناک کے نرم حصے تک پانی ضرور چڑھائیں کیونکہ غیر مسلم عمومی طور پر غسل میں ناک کے نرم حصے تک پانی نہیں چڑھاتے۔ اسی طرح اگر کلی کا فرض بھی ان سے باقی رَہ گیا ہو تو اِس فرض کو بھی ادا کرنا ہوگا ، الغرض جتنے بھی اعضاء جن کاغسل میں دھونا فرض ہوتا ہے اور وہ دُھلنے سے رہ گئے ہوں، تو قبول اسلام کے بعد اُن اعضا ء کا دھونا فرض ہوگا۔البتہ ان تینوں صورتوں میں بھی نئے سرے سے پورا غسل کرلینا مستحب ہے،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بعض نو مسلم صحابہ کو اُن کے اسلام لانے کے وقت غسل کا حکم دیا اور اِس حکم کو مستحب پر محمول کیا گیا۔
نو مسلم شخص پر قبولِ اسلام کے بعد غسل کے فرض اور مستحب ہونے سے متعلق تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:
(یجب علی من أسلم جنبا أو حائضا) أو نفساء ولو بعد الانقطاع علی الأصح كما في الشرنبلالية عن البرهان، و علله ابن الكمال ببقاء الحدث الحكمي (والا) بان أسلم طاھرا فمندوب
ترجمہ: جو کافر (مرد ہو یا عورت) جنبی ہونے کی حالت میں اسلام لائے، یا کافرہ عورت حیض یا نفاس والی مسلمان ہوئی اگرچہ اصح قول کے مطابق حیض و نفاس کے ختم ہونے کے بعد مسلمان ہوئی، ان(سب) پر غسل واجب ہے۔ جیسا کہ شرنبلالیہ میں برہان سے ہے اور علامہ ابن کمال نے اس کی علت حکمی حدث کے باقی ہونے سے بیان کی ہے، ورنہ پاک ہونے کی حالت میں اسلام قبول کریں تو غسل کرنا مستحب ہے۔
در مختار کی عبارت کے تحت رد المحتار میں ہے:
(قوله: على الأصح) مقابله ما قيل إنها لو أسلمت بعد الانقطاع لا غسل عليها بخلاف الجنب، و الفرق أن صفة الجنابة باقية بعد الإسلام فكأنه أجنب بعده، و الانقطاع في الحيض هو السبب ولم يتحقق بعد، فلذا لو أسلمت قبل الانقطاع لزمها(قوله:وعلله)أي علل الأصح. (قوله: ببقاء الحدث الحكمي) حاصله منع الفرق بين الحيض والجنابة؛ لأن التحقيق أن الانقطاع شرط لوجوب الغسل لا سبب۔۔۔ (قولہ: بان أسلم طاھرا)أی من الجنابۃ و الحیض و النفاس : أی بأن کان اغتسل أو أسلم صغیرا‘‘ ملتقطاً۔
ترجمہ:(شارح کا فرمانا :اصح قول کے مطابق)اس کے مقابل وہ قول ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر (کافرہ عورت) انقطاع (یعنی حیض کے ختم ہونے) کے بعد مسلمان ہو تو اس پر غسل لازم نہیں، برخلاف جنابت کے۔ اور فرق یہ ہے کہ جنابت کی صفت، اسلام کے بعد بھی باقی رہتی ہے، توگویا وہ اسلام کے بعد جنبی ہوا، جبکہ حیض میں انقطاع (یعنی خون کا بند ہونا) سبب ہے، اور وہ (قبول اسلام کے) بعد ثابت نہیں، اس لیے اگر وہ حیض کے ختم ہونے سے پہلے مسلمان ہوجائے تو (سبب یعنی انقطاع کے قبول اسلام کے بعد پائے جانے کی وجہ سے) اس پر غسل لازم ہے۔ اور (شارح کا قول کہ اس کی علت بیان کی) یعنی اصح قول کی علت بیان کی۔ اور (شارح کا قول: حکمی حدث کے باقی ہونے کی وجہ سے) خلاصہ یہ ہے کہ حیض اور جنابت کے درمیان فرق کو رَد کر دیا گیا ہے، کیونکہ تحقیق یہ ہے کہ انقطاع (حیض کے خون کا بند ہونا) غسل کے واجب ہونے کیلئے شرط ہے، سبب نہیں ۔۔۔ (اور شارح کا قول کہ پاک ہونے کی حالت میں اسلام قبول کریں) یعنی جنابت، حیض اور نفاس سے پاک ہوکر اسلام قبول کریں اس طرح کہ انہوں نے قبول اسلام سے پہلے غسل کرلیا ہو، یا نابالغی کی حالت میں اسلام قبول کریں(تو غسل مستحب ہے۔)
(تنویر الابصار مع در مختارو رد المحتار، جلد 1، صفحہ 339، 338،دارالمعرفۃ، بیروت)
نو مسلم پر غسل کے فرض ہونے کی وجہ اس کا نماز کا مکلف ہوجاناہے جس کیلئے طہارت ضروری ہے، اور جنابت وغیرہ حکمی ناپاکیاں ہیں جو اسلام کے بعد بھی باقی رہتی ہیں اور غسل کے بغیر ختم نہیں ہوتیں، چنانچہ تبیین الحقائق میں ہے:
’’إذا أسلم الكافر جنبا ففيه روايتان في رواية لا يجب لأنه ليس مخاطبا بالشرائع ۔۔۔وفي رواية يجب عليه لأن وجوب الغسل بإرادة الصلاة، وهو عندها مخاطب فصار كالوضوء، وهذا لأن صفة الجنابة مستدامة بعد إسلامه فدوامها بعده كإنشائها فيجب الغسل۔قال - رحمه اللہ - (و إلا ندب) أي و إن لم يكن الكافر الذي أسلم جنبا ندب؛ لأنه «- عليه السلام - أمر قيس بن عاصم و ثمامة بذلك حين أسلما» و حمل ذلك على الندب‘‘ ملتقطاً۔
ترجمہ: جب کوئی کافر حالتِ جنابت میں مسلمان ہو تو اس بارے میں دو روایتیں ہیں: ایک روایت کے مطابق اس پر غسل واجب نہیں، کیونکہ وہ (اسلام سے پہلے) شرعی احکام کا مخاطب نہیں تھا۔۔۔ اور ایک روایت کے مطابق اس پر غسل واجب ہے، کیونکہ غسل کا واجب ہونا نماز کے ارادے کی وجہ سے ہوتا ہے، اور وہ اِس وقت (یعنی قبول اسلام کے بعد) اس کا مخاطب ہے، تو یہ وضو کی طرح ہے۔اور یہ وجہ (بھی) ہے کہ جنابت کی صفت، اسلام کے بعد بھی باقی رہتی ہے، تو قبول اسلام کے بعد اس کا باقی رہنا ایسا ہے جیسے اسلام کے بعد اس حالت کا پیدا ہونا ، لہٰذا غسل واجب ہے۔ مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر وہ کافر جو اسلام لایا ہے جنابت کی حالت میں نہ ہو، تو اُس کے لیے (غسل کرنا) مستحب ہے؛ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے قیس بن عاصم اور ثمامہ رضی اللہ عنہما کو غسل کرنے کا حکم دیا تھا جب وہ دونوں حضرات اسلام لائے تھے اور اس حکم کو مستحب پر محمول کیا گیا ہے۔
حاشیہ شلبی علی تبیین الحقائق میں ہے:
( قوله وفي رواية يجب عليه) أي وهو ظاهر الرواية قال أستاذنا فخر الأئمة البديع وقول من قال لا يجب؛ لأن الكفار لا يخاطبون بالشرائع غير سديد فإن سبب الغسل إرادة الصلاة وزمان إرادتها مسلم ولأن صفة الجنابة مستدامة بعد الإسلام فيعطى لها حكم الإنشاء
ترجمہ: (اور ان کا قول کہ ایک روایت یہ ہے کہ اس پر غسل واجب ہے) یہی ظاہر الروایہ ہے۔ ہمارے اُستاذ فخر الائمہ البدیع نے فرمایا: جس نے یہ کہا کہ غسل واجب نہیں، کیونکہ کفار شرعی احکام کے مخاطب نہیں ہوتے (تو) یہ بات درست نہیں ہے،کیونکہ غسل کا سبب، نماز کا ارادہ ہے، اور نماز کے ارادے کا زمانہ مسلمان ہونے کا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ جنابت کی حالت اسلام کے بعد باقی رہتی ہے، تو اس پر ایسا ہی حکم دیا جائے گا جیسے یہ حالت اسلام کے بعد پیدا ہوئی ہو۔ (تبیین الحقائق مع حاشیۃ الشلبی، جلد 1، صفحہ18، 19، مطبوعہ قاھرۃ)
نو مسلم کیلئے غسل مستحب ہے،کیونکہ حضور ﷺ سے نئے اسلام لانے والوں کو غسل کا حکم دینا ثابت ہے، اور حکم کا ادنی درجہ استحباب ہے، لیکن یہ اس صورت میں ہے جبکہ اس کا جنبی ہونا معلوم نہ ہو،ورنہ غسل فرض ہوگا، چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:
(أما) المستحب فهو غسل الكافر إذا أسلم لما روي أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم «كان يأمر بالغسل من جاءه يريد الإسلام»، و أدنى درجات الأمر الندب، والاستحباب هذا إذا لم يعرف أنه جنب
ترجمہ: (بہرحال) مستحب غسل، تو وہ اس وقت ہے جب کوئی کافر اسلام قبول کرے؛ کیونکہ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جو شخص اسلام لانے کے ارادے سے آتا، آپ اُسے غسل کا حکم دیتے تھے، اور حکم کا ادنی درجہ مستحب ہونا ہے۔ اور یہ مستحب ہونا اس وقت ہے جب یہ معلوم نہ ہو کہ وہ جنبی ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد 1، صفحہ 35،دار الکتب العلمیہ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے: ’’کافر مَرد یا عورت جنب ہے یا حیض و نفاس والی کافرہ عورت اب مسلمان ہوئی اگرچہ اسلام سے پہلے حیض و نفاس سے فراغت ہو چکی، صحیح یہ ہے کہ ان پر غُسل واجب ہے۔ ہاں اگر اسلام لانے سے پہلے غسل کر چکے ہوں یا کسی طرح تمام بدن پر پانی بہ گیا ہو تو صرف ناک میں نرم بانسے تک پانی چڑھانا کافی ہو گا کہ یہی وہ چیز ہے جو کفار سے ادا نہیں ہوتی۔ پانی کے بڑے بڑے گھونٹ پینے سے کلی کا فرض ادا ہو جاتا ہے اور اگر یہ بھی باقی رہ گیاہو تو اسے بھی بجالائیں۔ غرض جتنے اعضا کا دھلنا غُسل میں فرض ہے جماع وغیرہ اسباب کے بعد اگر وہ سب بحالتِ کفر ہی دُھل چکے تھے تو بعد اسلام اعادہ غُسل ضرور نہیں، ورنہ جتنا حصہ باقی ہو اتنے کا دھولینا فرض ہے اور مستحب تو یہ ہے کہ بعد اسلام پورا غُسل کرے‘‘۔ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 324، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: ’’غسل کا دوسرا فرض یعنی ناک کے دونوں نتھنوں میں پورے نرم بانسے تک پانی چڑھانا ( جس)کیلئے پانی سونگھ کر چڑھانا درکار ہے جسے وہ(یعنی کفار) قطعاً نہیں کرتے،بلکہ لاکھوں جاہل مسلمان اس سے غافل ہیں‘‘۔ (فتاوی رضویہ، جلد 4، صفحہ 325، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-750
تاریخ اجراء: 15 ذی القعدۃ الحرام1446ھ/13 مئی 2025ء