دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ عورت نے نماز نہیں پڑھی تھی اور ابھی نماز کا وقت باقی تھاکہ عورت کو حیض آ گیا،تو اب نماز کا کیا حکم ہوگا؟کیا وہ قضا شمار ہوگی یا معاف؟
سائل: محمد طیب (فیصل آباد)
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
نماز کا وقت باقی ہو اور عورت نے ابھی نماز نہ پڑھی ہو کہ ماہواری شروع ہو جائے، تو عورت کو وہ نماز شرعاًمعاف ہے، یعنی اس کی قضا لازم نہیں، مثال کے طور پر ظہر کا وقت دو گھنٹے سے آچکا تھا مگر عورت نے ابھی نماز ادا نہیں کی تھی کہ ظہر کا وقت ختم ہونے سے پہلے ہی مخصوص ایام شروع ہوگئے، تو اب وہ نماز معاف ہوگئی۔
مسئلہ کی مزید تفصیل: ضابطہ یہ ہےکہ نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد اگر ابھی تک نماز نہ پڑھی ہو، تو نماز کی ادائیگی لازم ہونے یا فرضیت ساقط ہونے یا فرض ہونے کی صورت میں مکمل یا قصر لازم ہونے میں نماز کے آخری وقت کا اعتبار ہوتا ہے اور اِسی اعتبار سے احکام لاگو ہوتے ہیں، فقہی اعتبار سے اس کی بہت سی نظائر موجود ہیں، جیساکہ اگر مسافر آخری وقت میں مقیم ہوجائے یا مقیم مسافر ہوجائے اور نماز نہ پڑھی ہو، تو اس پر فرض نماز کے حکم میں تبدیلی آجاتی ہے، اِسی طرح عورت نماز کے آخری وقت میں حیض سے پاک ہو جائے، تو اپنی تفصیل کے مطابق اس پر وہ نماز لازم ہوتی ہے۔ لہٰذا یونہی جب کسی عورت نے نماز نہ پڑھی ہو اور نماز کے آخری وقت میں وہ حیض سے ہو، تو اس پر وہ نماز لازم نہیں ہوگی کہ حائضہ کو نماز معاف ہے۔
نماز پڑھنے میں کس وقت کا اعتبار ہوگا، اِس کے متعلق اُصول بیان کرتے ہوئے علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات: 1252ھ / 1836ء) لکھتے ہیں:
و الحاصل ان السبب ھو الجزء الذی یتصل بہ الاداء او الجزء الاخیر ان لم یود قبلہ
یعنی: خلاصہ کلام یہ ہےکہ نماز فرض ہونے کا اصل سبب وقت کا وہ جزو ہے جس حصے میں نماز ادا کی جائے، یا پھر اگر پہلے نماز ادا نہ کی ہو، تو آخری وقت کا اعتبار ہے۔ (رد المحتار مع الدر المختار، جلد 2، صفحہ 738، مطبوعہ کوئٹہ(
تغییرِ فرض میں آخری وقت کا اعتبار ہے،جیساکہ اگر مقیم شخص نماز کے آخری وقت میں مسافر ہوجائے، تو قصر نماز لازم ہو گی، چنانچہ تنویر الابصار و در مختار میں ہے:
(و المعتبر فی تغییر الفرض آخر الوقت فان کان) المکلف( فی آخرہ مسافرا وجب رکعتان و الا فاربع) ملخصاً
یعنی فرض تبدیل ہونے کے لئے آخری وقت کا اعتبار ہے، لہٰذا اگر مکلف آخری وقت میں مسافر ہو، تو اس پر دو رکعت پڑھنا واجب ہے، ورنہ چار رکعت پڑھنا لازم ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، جلد 2، صفحہ 738، مطبوعہ کوئٹہ(
عورت نے نماز نہ پڑھی ہو اور آخری وقت میں مخصوص ایام شروع ہوجائیں، تو نماز معاف ہونے کے متعلق صراحت کرتے ہوئے علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ / 1836ء) لکھتے ہیں:
أما الفرض ففي الصوم تقضیہ دون الصلاة و إن مضی من الوقت ما یمکنھا أداوٴھا فیھا؛لأن العبرة عندنا لآخر الوقت
ترجمہ:بہر حال فرض، تو وہ (یعنی حائضہ) فرض روزے کی قضا کرے گی، نماز کی نہیں، اگرچہ اسے اتنا وقت ملا ہو جس میں نماز ادا کرنے پر قادر تھی، کیونکہ ہمارے (احناف) کے نزدیک آخری وقت کا اعتبار ہے۔ (رد المحتار، کتاب الطھارة، جلد 1، صفحہ 485، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)
یونہی ”الفتاوی الہندیۃ“، ”منھل الواردین“ اور دیگر کتبِ فقہ میں ہے،
و اللفظ للاخر: (و المعتبر)فی حرمۃ الصلاۃ وعدم وجوبھا (فی کل وقت آخرہ مقدار التحریمۃ… فان حاضت فیہ سقط عنھا الصلاۃ)
ترجمہ: اور نماز کی حرمت اور عدمِ وجوب میں ہر نماز کا آخری وقت معتبر ہے، جس میں (شرائط کے ساتھ) تکبیرِ تحریمہ کہنے کی مقدار وقت مل جائے، پس اگر عورت اس وقت میں حائضہ ہو، تو اس سے نماز ساقط ہوجائے گی۔ (منھل الواردین، الفصل السادس فی احکام الدماء، صفحہ 110، مطبوعہ کوئٹہ)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ / 1947ء) لکھتے ہیں: ”نماز کا آخر وقت ہو گیا اور ابھی تک نماز نہیں پڑھی کہ حیض آیا، یا بچہ پیدا ہوا، تو اس وقت کی نماز معاف ہو گئی، اگرچہ اتنا تنگ وقت ہو گیا ہو کہ اس نماز کی گنجائش نہ ہو۔“ (بھارِ شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 380، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Fsd-9572
تاریخ اجراء: 26 ربیع الاخر1447ھ/ 20اکتوبر2025ء