دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
ایک بندے کو رات کو احتلام ہوا اور منی بستر کو لگ گئی، کیا وہ اس بستر کو پاک کیے بغیر دوبارہ استعمال کر سکتا ہے؟ اگر استعمال کرے تو کیا گناہ گار ہو گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر نجاست ایسی تازہ ہے کہ بستر استعمال کرنے سے نجاست چھوٹ کر پاک چیز کو بھی ناپاک کرے گی، تو یہ شرعا درست نہیں، اگراس طرح استعمال کیا کہ اس کی وجہ سے بلاوجہ پاک کپڑا، ناپاک ہوا، تویہ جائز نہیں تھا، اس سے توبہ کی جائے، اور اگر اس پر لگی نجاست خشک ہوچکی، کہ چھوٹ کر پاک چیز کو ناپاک نہیں کرے گی، تو استعمال کرنے میں حرج نہیں۔
البحر الرائق اور الدر المختار میں ہے
(واللفظ للدر(”ولہ لبس ثوب نجس فی غیر صلوۃٍ“ یعنی: نماز کے علاوہ میں آدمی ناپاک کپڑا پہن سکتا ہے۔
اس کے تحت فتاوی شامی میں ہے
”ولم یتعرض لحکم تلویثہ بالنجاسۃ والظاھر انہ مکروہ لانہ اشتغال بما لا یفید“
یعنی: یہاں شارح نے تلویثِ نجاست کا حکم بیان نہیں کیا اور ظاہر یہ ہے کہ (تلویثِ نجاست نہ ہونے کی صورت میں ناپاک کپڑا پہننا) مکروہ ہو کہ یہ ایک فضول کام میں پڑنا ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، جلد2، صفحہ93، مطبوعہ: کوئٹہ)
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے”وتنجیس الطاھر بغیر ضرورۃ لا یجوز“ یعنی: بغیر کسی ضرورت کے پاک چیز کو ناپاک کرنا، جائز نہیں ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ47، مطبوعہ: کوئٹہ)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں: ”غیر نماز میں نجس کپڑا پہنا تو حرج نہیں اگرچہ پاک کپڑا موجود ہو اور جو دوسرا نہیں تو اسی کو پہننا واجب ہے۔ یہ اس وقت ہے کہ اس کی نجاست خشک ہو، چھوٹ کر بدن کو نہ لگے ورنہ پاک کپڑا ہوتے ہوئے ایسا کپڑا پہننا مطلقاً منع ہے کہ بلاوجہ بدن ناپاک کرنا ہے۔“ (بہارِ شریعت، جلد1، حصہ3، صفحہ480، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب : مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر : WAT-4474
تاریخ اجراء : 02جمادی الثانی1447 ھ/24نومبر2025 ء