نجاست پونچھنے والا کپڑا گیلے ہاتھوں سے پکڑنے کا حکم

نجاست کو جس کپڑے سے صاف کیا وہ پاک ہوگا یا ناپاک اور اس کو گیلے ہاتھ سے پکڑنے کا حکم؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نظر نہ آنے والی نجاست کو جس کپڑے سے پونچھا جائے، وہ پاک ہوگا یا ناپاک؟ اور ایسی نجاست والے کپڑے کو گیلے ہاتھ سے پکڑنے کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

نجاست، خواہ مرئیہ ہو یا غیر مرئیہ یعنی سوکھنے کے بعد دکھائی دینے والی ہو یا نہیں، بہرحال اسے جس کپڑے سے پونچھا جائے، اس کپڑے کی وہ تمام جگہ ناپاک ہو جاتی ہے جہاں نجاست لگے۔ رہا نجاست لگے کپڑے کو گیلے ہاتھ سے پکڑنے کا حکم تو اس کی بنیادی طور پر دو صورتیں ہیں جن کے اندر مزید تفصیل ہے اور وہ حسب ذیل ہے:

(1) اگر نجاست لگا کپڑا خشک ہو چکا تھا پھر گیلے ہاتھ سے پکڑنے کی وجہ سے تر ہوا، مثلاً کپڑے پر پیشاب لگا اور وہ سوکھ گیا پھر اسے گیلے ہاتھ سے پکڑا جس سے کپڑا بھیگ گیا اور نجاست تر ہو گئی، تو (۱) اگر نجاست کی جگہ پر ہاتھ کی اتنی تری پہنچی کہ اس سے چھوٹ کر واپس ہاتھ کو لگی تو ہاتھ کی وہ جگہ ناپاک ہو جائے گی۔ (۲) اگر نجاست کی جگہ سے تری تو نہ چھوٹی بلکہ صرف نمی آئی مگر ہاتھ میں نجاست کا کوئی اثر (رنگ یا بو) آ گیا تو بھی ہاتھ کی ناپاکی کا حکم ہوگا۔ البتہ اگرہاتھ میں اس کپڑے کی صرف نمی آئی اور اثرِ نجاست نہ آیا تو ہاتھ ناپاک نہ ہوگا۔ (2) اگر نجاست لگے کپڑے پر نجاست کی اپنی تری موجود تھی، مثلاً کپڑے پر پیشاب لگا اور اس کی تری اب تک قائم ہے، تو (۱) اگر اس کو پکڑنے سے ہاتھ میں نجاست کی تری آئے یا نمی، دونوں صورتوں میں اسی سے ہاتھ کا وہ مقام ناپاک ہو جائے گا اگرچہ نجاست کی تری ہاتھ میں منتقل نہ ہو۔ (۲) یوں ہی ہاتھ میں نجاست کا کوئی اثر مثلاً رنگ یا بو ظاہر ہونے سے بھی ہاتھ ناپاک ٹھہرے گااور اگر ایسے کپڑے کو اس احتیاط سے پکڑا کہ نجس جگہ پر ہاتھ لگنےنہ پایا،اور کسی طرح ہاتھ میں نجاست کی تری، نمی یا کوئی اثر ظاہرنہ ہوا تو ہاتھ ناپاک نہیں ہوگا۔

علامہ اکمل الدین محمد بن محمد البابرتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 786 ھ / 1384 ء) لکھتے ہیں:

وإذا ‌أصابت ‌الثوب لا يطهر إلا بالغسل؛ لأن ‌الثوب لتخلخله: أي لكونه غير مكتنز يتداخله كثير من أجزاء النجاسة فلا يخرجها إلا الغسل

ترجمہ: اور جب نجاست کپڑے کو لگ جائے تو وہ محض دھونے سے ہی پاک ہوگا؛ کیونکہ کپڑے کے اجزا کے (حقیقتاً) غیر پیوستہ ہونے یعنی کپڑے کے ٹھوس نہ ہونے کی وجہ سے اس میں نجاست کے بہت سے ذرات داخل ہو جاتے ہیں، اور ان کو صرف دھونا ہی نکال سکتا ہے۔(العناية شرح الهداية، كتاب الطهارات، ‌‌باب الأنجاس وتطهيرها، جلد 1، صفحہ 196، دار الفکر، بیروت)

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1340 ھ / 1921 ء) فرماتے ہیں:

هو اكتساب الطاهر حكم النجاسة عند لقاء النجس و ذلك يحصل في الطاهر المائع القليل بمجرّد اللقاء و إن كان النجس يابساً لا بلّة فيه، و في الطاهر الغير المائع بانتقال البلة النجسة إليه فلا بدّ لتنجيسه من بلة تنفصل

ترجمہ: یہ پاک چیز کا نجاست سے ملنے پر ناپاکی کا حکم حاصل کرنا ہے، اور پاک قلیل مائع شے کے معاملے میں وہ محض نجاست کے ملنے سے حاصل ہو جاتا ہے، اگرچہ نجاست ایسی خشک ہو کہ اس میں کوئی تری نہ ہو، جبکہ پاک غیر مائع (ٹھوس) شے کے معاملے میں وہ ناپاک تری کے اس پاک شے میں منتقل ہونے سے حاصل ہوتا ہے، پس غیر مائع شے کے ناپاک ہونے کے لیے ایسی تری کا ہونا ضروری ہے جو جدا ہو سکے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 2، صفحہ 163، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

علامہ محمد بن محمد ابن امیر حاج رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 879 ھ/ 1474 ء) لکھتے ہیں:

”إذا غسل رجليه و مشى على لبد نجس أي: يابس، و لم يقف عليها و رجلاه مبتلتان بالماء، ففيه أيضاً هذا التفصيل بما عليه من التذييل، فيقال: إن ابتلت النجاسة و لم تصبهما البلة حتى إنه لم يظهر أثر البلة فيهما لا يتنجسان، و إن أصابتهما البلة حتى إنه ظهر أثر البلة فيهما يتنجسان... فلو كانت النجاسة في الأرض رطبة و رجله يابسة، ففي الخلاصة: تتنجس الرجل إذا ظهرت الرطوبة فيها. قال شيخنا رحمه الله: و يجب حمل الرطوبة على البلل لا النداوة“

ترجمہ: جب کوئی اپنے پیر دھوئے اور ناپاک خشک قالین پر چلے، اس حال میں کہ اس کے پیر پانی سے تر ہوں اور وہ اس پر ٹھہرے نہیں تو اس میں بھی یہ تفصیل ہے، اس پر موجود اضافے کے ساتھ: پس کہا جائے گا کہ اگر نجاست تر ہو گئی اور پیروں کو تری نہ پہنچی، یہاں تک کہ ان میں اس تری کا کوئی اثر ظاہر نہ ہوا، تو وہ ناپاک نہیں ہوں گے، اور اگر ان کو تری پہنچی، یہاں تک کہ ان میں تری کا اثر ظاہر ہوا، تو وہ ناپاک ہوں گے۔ پس اگر زمین کی نجاست تر ہو اور پاؤں خشک ہوں، تو خلاصۃ میں ہے: پیر ناپاک ہو جائے گا جبکہ پیر میں رطوبت ظاہر ہو جائے۔ ہمارے شیخ (علامہ ابن ہمام) رحمہ اللہ نے فرمایا: رطوبت کو تری پر محمول کرنا واجب ہے، نہ کہ صرف نداوت (نمی) پر۔ (حلبة المجلی في شرح منية المصلي، فصل في الآسار، جلد 1، صفحہ 501- 502، دار الكتب العلمية، بیروت)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1367 ھ/ 1948 ء) لکھتے ہیں: ”بھیگے ہوئے پاؤں نجس زمین یا بچھونے پر رکھے تو ناپاک نہ ہوں گے، اگرچہ پاؤں کی تری کا اس پر دھبہ محسوس ہو، ہاں اگر اس زمین یا بچھونے کو اتنی تری پہنچی کہ اس کی تری پاؤں کو لگی تو پاؤں نجس ہو جائیں گے۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 2،صفحہ 393، مکتبة المدینہ، کراچی)

شیخ برہان الدین ابراہیم بن محمد حلبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 956 ھ/ 1549 ء) لکھتے ہیں:

(و اذا لف الثوب المبلول النجس في ثوب طاهر يابس فظهرت نداوته) أي نداوة المبلول (على الطاهر و لكن لا يصير رطبا) بحيث يسيل منه شيء بالعصر بل كان (بحيث) لو عصر (لا يسيل) منه شيء (و لا يتقاطر) اختلف المشايخ فيه و (الأصح أنه لا يصير نجسا) و المراد من المبلول المبلول بالماء لا المبلول بعين النجاسة كالبول، فإن الطاهر لو لف في المبلول بالبول فظهرت فيه النداوة يتنجس على ما حققناه في الشرح، و كذا المراد إذا لم يظهر في الثوب الطاهر أثر النجاسة من لون أو ريح، فلو ظهر شيء من ذلك تنجس

ترجمہ: اور اگر ناپاک گیلا کپڑا کسی خشک پاک کپڑے میں لپیٹا گیا اور اس گیلے کی نمی پاک کپڑے پر ظاہر ہوئی، لیکن وہ تر نہ ہوا ایسے کہ اسے نچوڑنے پر اس سے کچھ بہے، بلکہ وہ (صرف نم) ہوا اس طرح کہ اگر اسے نچوڑا جائے تو اس سے کوئی شے نہ بہے اور نہ ہی قطرے ٹپکیں، تو اس صورت میں مشائخ کرام کا اختلاف ہے، اور اصح یہ ہے کہ وہ پاک کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔ یہاں گیلے کپڑے سے مراد ایسا جو پانی سے تر ہو، نہ کہ وہ جو عین نجاست جیسے کہ پیشاب سے تر ہو؛ کیونکہ اگر پاک کپڑا پیشاب سے تر کپڑے میں لپیٹا جائے اور اس میں نمی ظاہر ہو، تو وہ ناپاک ہو جائے گا، شرح کبیری میں جو ہم نے اس کی تحقیق کی ہے اس کے مطابق۔ اور اسی طرح یہاں مراد جب پاک کپڑے میں نجاست کا کوئی اثر یعنی رنگ یا بو ظاہر نہ ہو ہے، پس اگر اس میں سے کوئی شے (پاک کپڑے میں) ظاہر ہو جائے تو وہ ناپاک ہو جائے گا۔ (حلبي صغير شرح منية المصلي، صفحہ 268، دار السراج ترکی)

علامہ سید مصطفی بن محمد خلوصی حصاری حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1253 ھ/ 1837 ء) اس کے تحت لکھتے ہیں:

(قوله والمراد من المبلول) المبلول بالماء بأن كان الثوب متنجسا فأصابه ماء طاهر فصار مبلولا بالماء أو بأن كان متنجسا بالماء النجس، فالمراد بالماء مطلق الماء (قوله يتنجس) لأن النداوة حينئذ عين النجاسة و إن لم تقطر بالعصر

ترجمہ: "شارح کا قول: اور گیلے کپڑے سے مراد" ایسا جو پانی سے تر ہو، بایں طور کہ کپڑا نجس ہوا پھر اس پر پاک پانی پڑا تو وہ پانی سے تر شدہ ہو گیا، یا بایں طور کہ وہ کپڑا ہی نجس پانی سے ناپاک ہوا، پس پانی سے مراد مطلق پانی ہے۔ "شارح کا قول: اس میں نمی ظاہر ہو، تو وہ ناپاک ہو جائے گا" کیونکہ اس صورت میں وہ نمی ہی عینِ نجاست ہوتی ہے، اگرچہ کپڑے کو نچوڑنے پر کچھ نہ ٹپکے۔ (حلية الناجي علي حلبي صغير، صفحہ 176 ملتقطا، المطبعۃ العثمانیة)

علامہ محمد عابد بن احمد سندی مدنی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1257 ھ/ 1841 ء) لکھتے ہیں:

(و لو لف) ثوب طاهر (في) ثوب (مبتل بنحو بول) كخمر (إن ظهر نداوته) في الطاهر تنجس لأن نداوته نجسة (أو) ظهر (أثره) أي البول من لونه أو طعمه أو ريحه في الطاهر (تنجس) لأن وجود الأثر يدل على وجود العين (و إلا) بأن لم ينتد و لا ظهر شيء من آثاره (لا) ينجس لعدم ما يدل على انتقال النجاسة إليه فلا يحكم بنجاسته

ترجمہ: اور اگر کسی پاک کپڑے کو پیشاب کی مثل (نجاست) سے بھیگے ہوئے کپڑے میں لپیٹا، جیسا کہ شراب سے، تو اگر نجاست کی نمی پاک کپڑے میں ظاہر ہو جائے، تو وہ کپڑا ناپاک ہو جائے گا؛ کیونکہ وہ نمی خود نجس ہے، یا اگر پیشاب کا اثر یعنی رنگ، ذائقہ یا بو پاک کپڑے میں ظاہر ہوئی، تو بھی وہ ناپاک ہو جائے گا؛ کیونکہ اثر کا پایا جانا عین نجاست کے موجود ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ ورنہ اگر (پاک کپڑے میں) کوئی نمی ظاہر نہ ہو اور نہ ہی نجاست کے اثرات میں سے کوئی چیز ظاہر ہو، تو وہ ناپاک نہیں ہوگا؛ کیونکہ کوئی ایسی چیز موجود نہیں جو اس کی طرف نجاست کے منتقل ہونے پر دلالت کرے، پس اس کی ناپاکی کا حکم نہیں ہوگا۔ (طوالع الأنوار شرح الدر المختار، کتاب الطهارة، ‌‌باب الأنجاس، جلد 1، صفحه 416، مخطوطه)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1367 ھ/ 1948 ء) لکھتے ہیں: ”ناپاک کپڑے میں پاک کپڑا یا پاک میں ناپاک کپڑا لپیٹا اور اس ناپاک کپڑے سے یہ پاک کپڑا نم ہو گیا تو ناپاک نہ ہو گا بشرطیکہ نجاست کا رنگ یا بو اس پاک کپڑے میں ظاہر نہ ہو، ورنہ نم ہو جانے سے بھی ناپاک ہو جائے گا، ہاں اگر بھیگ جائے تو ناپاک ہو جائے گا اور یہ اسی صورت میں ہے کہ وہ ناپاک کپڑا پانی سے تر ہوا ہو اور اگر پیشاب یا شراب کی تری اس میں ہے تو وہ پاک کپڑا نم ہو جانے سے بھی نجس ہو جائے گا اور اگر ناپاک کپڑا سوکھا تھا اور پاک تر تھا اور اس پاک کی تری سے وہ ناپاک تر ہو گیا اور اس ناپاک کو اتنی تری پہنچی کہ اس سے چُھوٹ کر اس پاک کو لگی تو یہ ناپاک ہو گیا ورنہ نہیں۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 2،صفحہ 393، مکتبة المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-751

تاریخ اجراء: 14 ذو القعدة الحرام 1446ھ /12 مئی 2025ء