نیل پاؤڈر ملے پانی سے وضو یا غسل کرنا

نیل پاؤڈر ملے ہوئے پانی سے وضو یا غسل ہو جائے گا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نیل پاؤڈر جو کپڑوں میں استعمال ہوتا ہے، وہ اگر صاف پانی میں ڈالا جائے، تو اس سے وضو وغسل کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

شریعت مطہرہ کی رُو سے جب صاف پانی میں کوئی ایسی چیز ملائی جائے کہ جس سے مقصود جسم یا کپڑوں سے میل صاف کرنا ہو یا زیادتِ نظافت(مثلاً: کپڑے کو مزید اُجلا کرنا، نکھارنا وغیرہ) ہو، تو اس سے وضو و غسل جائز ہے، اگرچہ اس سے پانی کا کوئی وصف (رنگ، بُویا ذائقہ) تبدیل ہو جائے کہ اسے پانی ہی کہا جائے گا، جبکہ پانی کی رقت وسیلان(بہاؤ ) میں کوئی فرق نہ آئے۔ مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں دیکھا جائے ،تو پانی میں ڈالا جانے والا نیل پاؤڈر محض کپڑے میں ہلکا سا نیلا پن دینے کے لیے ہوتا ہے، جو حقیقتاً کپڑے ہی کی پیلاہٹ کو دور کرنے اور سفیدی کو نمایاں و نکھارنے کے لیے ہوتا ہے، نیز اس سے پانی کی رقت و سیلان میں کوئی فرق نہیں آتا، لہٰذا اس سے وضو وغسل جائز ہے اور اسے پانی ہی کہا جائے گا۔

صاف پانی میں اگر کوئی پاک چیز مل جائے اور اس سے مقصود صفائی و زیادتِ نظافت ہو، تو اس سے وضو وغسل کرنے کے متعلق شرعی اصول بیان کرتے ہوئے علامہ علاؤ الدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1088ھ / 1677ء) لکھتےہیں:

بما قصد به التنظيف كأشنان وصابون فيجوز إن بقي رقتہ

ترجمہ: اُس پانی سے طہارت حاصل کرنا، جائز ہے جس سے مقصود صفائی ہو، جیسے اَشنان اور صابن، جبکہ پانی کی رقت وسیلان باقی ہو۔ مذکورہ عبارت کے الفاظ

إن بقي رقته

کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ / 1836ء) لکھتے ہیں:

أما لو صار كالسويق المخلوط فلا لزوال اسم الماء عنه

ترجمہ:لیکن اگر وہ مخلوط ستو کی طرح (گاڑھا) ہو جائے، تو پھر اس سے طہارت حاصل کرنا، جائز نہیں، کیونکہ اس سے پانی کا نام زائل ہو چکا ہے۔(ردالمحتار مع الدرالمختار، جلد 1، صفحہ 385، مطبوعہ کوئٹہ)

امام فخر الدین قاضی خان حسن بن منصور اَوزجندی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 259ھ) لکھتے ہیں:

لا بماء الصابون و الحرض إذا ذهبت رقته و صار ثخينا فإن بقيت رقته و لطافته جاز التوضؤ به

ترجمہ: صابون اور حرض (اَشنان کا پاؤڈر جسے بطور صابن استعمال کیا جاتا ہے، اس) کے پانی سے وضو کرنا، جائز نہیں ہے، جبکہ پانی کی رقت و سیلان ختم ہو کر گاڑھا ہو جائے، لیکن اگر پانی کی رقت و لطافت باقی رہے، تو اس سے وضو کرنا ، جائز ہے۔(فتاوی قاضی خان، جلد 1، صفحہ 23، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ / 1947ء) لکھتے ہیں:”جس پانی میں کوئی چیز مل گئی کہ بول چال میں اسے پانی نہ کہیں، بلکہ اس کا کوئی اَور نام ہو گیا، جیسے شربت، یا پانی میں کوئی ایسی چیز ڈال کر پکائیں جس سے مقصود میل کاٹنا نہ ہو، جیسے شوربا، چائے، گلاب یااور عرق، اس سے وُضو و غُسل جائز نہیں۔ اگر ایسی چیز ملائیں یا ملا کر پکائیں جس سے مقصود میل کاٹنا ہو، جیسے صابون یا بیری کے پتے، تو وُضو جائزہے، جب تک اس کی رقت زائل نہ کر دے اور اگر ستُّو کی مثل گاڑھا ہو گیا، تو وُضو جائز نہیں۔“ (بھارِ شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 329، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

پانی میں ملائی جانے والی مذکورہ شے سے اگرچہ پانی کا کوئی وصف تبدیل ہو جائے، اس سے وضو و غسل جائز ہے، جیسا کہ علامہ بُر ہانُ الدین مَرْغِینانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 593ھ / 1196ء) لکھتے ہیں:

تجوز الطهارة بماء خالطه شيء طاهر فغير أحد أوصافه كماء المد والماء الذی اختلط به اللبن أو الزعفران أو الصابون أو الاشنان

ترجمہ: اُس پانی سے طہارت حاصل کرنا، جائز ہے جس میں کوئی پاک چیز مل کر اُس کے اوصاف(رنگ، بُو یا ذائقہ) میں سے کسی کو تبدیل کر دے، جیسے سیلاب کا پانی اور وہ پانی جس میں دودھ، زعفران، صابون یا اَشنان ملی ہو۔(الھدایہ، كتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 21، مطبوعہ دار احياء التراث العربي، بيروت)

مذکورہ عبارت کے الفاظ

فغير أحد أوصافه

کے تحت علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 855ھ / 1451ء) لکھتے ہیں:

فی المجتبى لا يقبل التغير به حتى لو غير الأوصاف الثلاثة بالأشنان أو الصابون أو الزعفران أو الأوراق أو اللبن و لم يسلب اسم الماء عنه ولا معناه فإنه يجوز التوضؤ به

ترجمہ: "المجتبی" میں ہے کہ اس سے (محض) اوصاف کے تبدیل ہو جانے کو قبول نہیں کیا جائے گا، یہاں تک کہ اگر اَشنان، صابون، زعفران، پتے یا دودھ کے ذریعے تینوں اوصاف تبدیل ہو جائیں، اور پانی کا نام و مفہوم باقی رہے، تو اس سے وضو جائز ہے۔ (البناية شرح الهداية، جلد 1، صفحہ 361، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”صابون، اَشنان کہ ایک گھاس ہے اُسے حُرض بھی کہتے ہیں، ریحان جسے آس بھی کہتے ہیں، بابونہ، خطمی (اور) بیری کے پتّے کہ یہ چیزیں میل کاٹنے اور زیادتِ نظافت کو آب غسل میں شامل کی جاتی ہیں، اِس سے غسل و وضو جائز ہے، اگرچہ اوصاف میں تغیر آجائے جب تک رقّت باقی رہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 02، صفحہ 566، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FSD-9338

تاریخ اجراء: 24 ذو القعدۃ الحرام 1446ھ / 22 مئی 2025ء