کیا پانی کے اسپرے سے وضو ہوجائے گا؟

کیا پانی کے اسپرے سے وضو ہوجائے گا؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا اسپرے کر کے اعضائے وضو پر پانی ڈالا جائے تو اس  سے  وضو ہوجائے گا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

وضو کے چار فرائض ہیں، ان میں سے تیسرے فرض (چوتھائی سر کے مسح) کے علاوہ بقیہ تینوں فرائض میں اعضائے وضو کا  دھونا فرض  ہے۔ دھونے کی تعریف یہ ہے کہ اُس عضو کے ہر ہر حصے پر کم از کم دو قطرے پانی بہہ جائے مثلاً  ہاتھوں کو دھونا  ہے تو ناخنوں سے لے کر کہنیوں تک کے ہر ہر حصے پر کم از کم دو قطرے پانی بہہ جائے کہ قرآن و حدیث میں اعضائے وضو کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے، امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کا بھی یہی مؤقف ہے۔

لہٰذا دھونے کی تعریف کے پیشِ نظر اسپرے کے ذریعے  اعضائے وضو کا دھلنا عملاً مشکل ہے، کیونکہ اسپرے میں کسی عضو کو گیلا کرنا تو پایا جاتا ہے مگر دھونا نہیں پایا جاتا، البتہ اگر کوئی بہت زیادہ اسپرے کرے تو دھونے کی تعریف کے مطابق اُس عضو کا دھویا جانا فی نفسہٖ ممکن تو ہے،  لیکن عوام الناس میں ایسی چیز کو بیان کرنا کہ جس پر عمل کرکے نماز جیسا اہم فرض بھی خطرے میں پڑے، یہ کسی  طرح کی عقلمندی نہیں ہے۔ نیز  یہ مسئلہ بھی  ذہن نشین رہے کہ  وضو میں ان چار فرائض کے علاوہ دیگر کئی امور مثلاً کلی کرنا، ناک میں پانی چڑھانا وغیرہ سنت مؤکدہ ہیں اور سنتِ مؤکدہ کو بلا عذرِ شرعی چھوڑنے کی عادت بنالینا گناہ ہے۔ یونہی  مسجد کا تقدس بھی انتہائی  اہم ہے  لہذا عوام الناس اگر آسانی کے پیشِ نظر مسجد میں وضو کرنے لگیں تو مستعمل پانی سے مسجد کو بچانا انتہائی مشکل قریب بہ ناممکن ہوگا، یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے مطلقاً مسجد میں وضو کرنے سے منع فرمایا ہے۔

وضو کے چار فرائض سے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِؕ    

ترجمہ کنزالایمان:”اے ایمان والو جب نماز کو کھڑے ہونا چاہو تو اپنے منہ دھوؤ اور کہنیوں تک ہاتھ اور سروں کا مسح کرو اور گٹوں تک پاؤں دھوؤ۔ “ (القرآن الکریم،پارہ06،سورۃ المائدۃ،آیت06)

اعضائے وضو پر پانی بہائے بغیر تیل کی طرح چپڑلینے سے وضو نہیں ہوگا۔ جیسا کہ بدائع الصنائع، بحر الرائق، رد المحتار، بنایہ وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:

”و النظم للاول “”فالوضوء اسم للغسل والمسح، لقولهٖ تبارك وتعالى

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِؕ۔۔۔۔الخ﴾

 أمر بغسل الأعضاء الثلاثة ، ومسح الرأس۔ فلا بد من معرفة معنى الغسل والمسح فالغسل هو إسالة المائع على المحل، والمسح هو الإصابة ، حتى لو غسل أعضاء وضوئه، ولم يسل الماء، بأن استعمله مثل الدهن، لم يجز في ظاهر الرواية“

یعنی  اللہ عزوجل کے اس مبارک فرمان

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ ۔۔۔۔الخ             

 کی بنا پر، وضو  بعض اعضا کو دھونے اور  بعض کا مسح کرنا ہے کہ آیتِ مبارک میں تین اعضاء کو دھونے  اور  سر کا  مسح کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب دھونے اور مسح کرنے  کا معنی کیا ہے ؟ اس بات کی پہچان ضروری ہے، لہذا  دھونے  کا معنی کسی مائع (liquid)چیز کو اعضائے وضو  پر بہانا ہے جبکہ مسح سے مراد تری کا پہنچانا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی نے اپنے اعضائے وضو پر پانی بہائے بغیر انہیں  گیلا کر لیا ، وہ اس طرح کہ  اُس شخص نے پانی کو تیل کی طرح اعضائے وضو پر استعمال کیا، تو ظاہر الروایہ کے مطابق ایسا کرنا،   کافی نہیں ہوگا ۔ “(بدائع الصنائع، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 03، دار الكتب العلميہ، بیروت، ملتقطاً)

دھونے سے مراد اُس عضو کے ہرحصے پر دو قطرے پانی بہانا ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں مذکور ہے:

”(غسل الوجه) أي إسالة الماء مع التقاطر ولو قطرة. وفي "الفيض" أقله قطرتان في الأصح“

 یعنی وضو کا ایک  فرض   چہرے کو دھونا   ہے یعنی چہرے پر  پانی  بہاناجس سے   قطرے ٹپکیں  اگرچہ ایک ہی قطرہ  ٹپک جائے ۔ "فیض " میں ہے کہ اصح قول کے مطابق تقاطر کی کم از کم حد یہ ہے کہ   ( عضو کے ہر ہر حصے)  پر دو قطرے پانی بہہ جائے ۔

مذکورہ بالا عبارت کے تحت رد المحتار میں ہے:

” (قوله: غسل الوجه) الغسل بفتح الغين لغة: إزالة الوسخ عن الشيء بإجراء الماء عليه۔۔۔۔ لو لم يسل الماء بأن استعمله استعمال الدهن لم يجز في ظاهر الرواية ، وكذا لو توضأ بالثلج ولم يقطر منه شيء لم يجز۔۔۔۔(قوله: أقله قطرتان) يدل عليه صيغة التفاعل. اهـ. ح.ثم لا يخفى أن هذا بيان للفرض الذي لا يجزئ أقل منه“

 یعنی (قوله: غسل الوجه) غَسل غین کے فتح کے ساتھ، اس کا لغوی معنی ہے " کسی چیز پر پانی بہا کر اُس چیز پر  سے میل کو دور کرنا "۔ ۔۔۔۔ اگر کسی نے پانی نہ بہایا بلکہ تیل کی طرح پانی کو استعمال کیا تو ظاہر الروایہ کے مطابق  یہ کفایت نہیں کرے گا ، یونہی اگر کسی نے برف سے وضو کیا اور   عضو  پر پانی نہیں  بہا تو طہارت حاصل نہ ہوگی۔۔۔۔ (قوله: أقله قطرتان)  دو قطرے بہانے پر تفاعل(تقاطر) کا صیغہ دلالت کررہا ہے۔ الخ، "حلبی"۔ پھر یہ بات مخفی نہیں کہ یہاں اُس فرض مقدار کا بیان ہے کہ جس میں کمی  کی تو       طہارت کے  لئے کافی نہیں  ۔(رد المحتارعلی الدر المختار،کتاب الطھارۃ، ج 01، ص217-216، مطبوعہ پشاور، ملتقطاً)

فتاوٰی رضویہ میں ہے:”مُنہ، ہاتھ، پاؤں تینوں عضوؤں کے تمام مذکور ذرّوں پر پانی کا بہنا فرض ہے فقط بہے گا ، ہاتھ پھر جانا یا تیل کی طرح پانی چُپڑ لینا تو بالاجماع کافی نہیں ۔۔۔اور صحیح مذہب میں ایک بوند ہرجگہ سے ٹپک جانا بھی کافی نہیں کم سے کم دو بوندیں ہر ذرہ  ابدان مذکورہ پر سے بہیں۔(فتاوی رضویہ،ج01 (الف)، ص 287، رضا فاؤنڈیشن، لاھور ، ملتقطا)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13816

تاریخ اجراء:16ذیقعدۃ الحرام 1446 ھ/14مئی  2025   ء