زخم پر پٹی بندھی ہو تو وضو یا تیمم کا شرعی حکم

زخم پر پٹی بندھی ہو، تو وضو ہی کرنا ہوگا یا تیمم بھی کرسکتے ہیں؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارےمیں کہ میری آنکھ کا آپریشن ہوا، جس کی وجہ سے میری آنکھ پر پٹی باندھی گئی ہے، ڈاکٹرصاحب نے کہا ہے کہ آپ اسے پانی سے بچائیے گا، اگر اس پر پانی لگا تو آپ کی آنکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور نماز کے لیے وضو کرنے کی بجائے تیمم کیجئے گا۔ میں نے اپنے علاقے کے ایک عالم صاحب سے اس کے متعلق مسئلہ پوچھا، تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ وضو کرنے کی بجائے تیمم کرکے نماز پڑھیں پھر ایک مفتی صاحب سے اپنی کیفیت بیان کرکے کال پر مسئلہ پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ آپ وضو ہی کریں گے جس جگہ پر پٹی بندھی ہوئی ہے، اس جگہ مسح کریں گے۔ میری شرعی رہنمائی فرمائیں کہ اس صورت میں وضو کا کیا حکم ہے؟ کیا مجھے تیمم کی اجازت ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں آپ پر وضو کرنا ہی لازم ہے، تیمم کرنے کی اجازت نہیں۔

اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ اگر اعضائے وضو پر زخم کی وجہ سے پٹی باندھی ہوئی ہو اور اس پٹی پر پانی بہانا نقصان دہ ہو تو اس پٹی والے حصے کے علاوہ باقی اعضائے وضو کہ جن کو وضو میں دھویا جاتاہے، ان کو دھونے کا حکم ہے اور اس پٹی پر مسح کرنے کا حکم ہے اور اگر اس پٹی پر مسح کرنا بھی نقصان دہ ہو، تو اتنے حصے کوچھوڑ دے اور باقی اعضائے وضو کو دھولے کہ اس کے حق میں اسے دھونے یا مسح کرنے کا حکم ساقط ہے۔

نیز جس شخص نے غلط مسئلہ بتایا اس پر توبہ لازم ہے کہ بغیر علم کے شرعی حکم بتانا حرام ہے۔

زخم پر پانی بہانا نقصان دہ ہو تو اس کا حکم بیان کرتے ہوئے الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

”فمن كان به جراحة يضرها الماء ووجب عليه الغسل غسل بدنه إلا موضعها ولا يتيمم لها ، وكذلك إن كانت الجراحة في شيء من أعضاء الوضوء غسل الباقي إلا موضعها و لا يتيمم لها“

یعنی: جسے ایسا زخم ہوجس پر پانی بہانا نقصا ن دے اور اس پر غسل لازم ہوجائے تو زخم والی جگہ کے علاوہ باقی بدن پر پانی بہائے اور وہ اس زخم کی وجہ سے تیمم نہیں کرے گا۔ اسی طرح اگر اعضائے وضو میں سے کسی عضو پر زخم ہوجائےتو زخم والی جگہ کے علاوہ باقی اعضائے وضو پر پانی بہائے اور وہ اس زخم کی وجہ سے تیمم نہیں کرے گا۔ (الاختیار لتعلیل المختار، جلد 01، صفحہ 33، مطبوعہ پشاور)

زخم کی جگہ کو کب دھویا جائے گا، کب اس پر مسح کیا جائے گا اور کب مسح کرنا بھی معاف ہے ؟ اس حوالےسے تفصیل بیان کرتے ہوئے درمختار میں ہے:

”لزوم غسل المحل و لو بماء حار، فإن ضر مسحه، فإن ضر مسحها، فإن ضر سقط أصلا“

یعنی: اولاً زخم کی جگہ کو دھونا ہی لازم ہے اگرچہ گرم پانی سے ہواور اگر دھونے سے ضرر ہو تو مسح کرے، اگر زخم کی جگہ پر مسح کرنے سے بھی ضرر ہو تو پٹی پر مسح کرے، اگر پٹی پر مسح کرنے سے بھی ضرر ہوتو معافی ہے۔ (در مختار معہ رد المحتار، جلد 01، صفحہ 517، مطبوعہ کوئٹہ)

اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے فتاوی رضویہ میں سوال ہوا: ”زید کی ران میں پھوڑا یا اور کوئی بیماری ہے ڈاکٹر کہتا ہے پانی یہاں نقصان کرے گا مگر صرف اسی جگہ مضر ہے اور بدن پر ڈال سکتاہے اس حالت میں وضویا غسل کے لیےتیمم درست ہے یا نہیں؟ اگر درست ہے تو تیمم غسل کا ویسا ہی ہے جیسا وضو کا؟ یا کیا حکم ہے؟

آپ علیہ الرحمۃ نے اس سوال کا جواب دیا:”صورتِ مسئولہ میں غسل یا وضو کسی کیلئے تیمم جائز نہیں وضو کیلئے نہ جائز ہوناتوظاہر کہ ران کو وضو سے کوئی علاقہ نہیں اور غسل کیلئے یوں نا روا کہ اکثر بدن پر پانی ڈال سکتا ہے لہٰذا وضو تو بلاشبہ تمام وکمال کرے اور غسل کی حاجت ہوتواگر مضرت صرف ٹھنڈاپانی کرتا ہے گرم نہ کرے گا اور اسے گرم پانی پر قدرت ہے توبیشک پورا غسل کرے اتنی جگہ کو گرم پانی سے دھوئے باقی بدن گرم یاسرد جیسے سے چاہے ،اور اگر ہر طرح کا پانی مضر ہے یا گرم مضر تو نہ ہوگا مگر اسے اس پر قدرت نہیں توضرر کی جگہ بچا کر باقی بدن دھوئے اور اس موضع پر مسح کرلے اور اگر وہاں بھی مسح نقصان دے مگر دوا یا پٹی کے حائل سے پانی کی ایک دھار بہا دینی مضر نہ ہوگی تو وہاں اُس حائل ہی پر بہادے باقی بدن بدستور دھوئے اور اگر حائل پر بھی پانی بہانا مضر ہوتو دوا یا پٹی پر مسح ہی کرلے اگر اس سے بھی مضرت ہوتو اُتنی جگہ خالی چھوڑ دے ۔ جب وہ ضرر دفع ہوتوجتنی بات پر قدرت ملتی جائے بجالاتاجائے ۔ یہی سب حکم وضو میں ہیں ۔ اگر اعضائے وضو میں کسی جگہ کوئی مرض ہو۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 01 (ب)، صفحہ 617 - 618، رضا فاؤنڈیشن)

بغیر علم کے فتوی دینے کے متعلق کنز العمال میں بحوالہ ابن عساکر حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے مروی ہے:

”من افتی بغیر علم لعنتہ ملٰئکۃ السماء و الارض “

یعنی: جو بغیر علم کے کوئی حکم شرعی بتائے اس پر آسمان و زمین کے فرشتے لعنت کرتے ہیں۔ (کنز العمال، جلد 10، صفحہ 84، مطبوعہ ملتان)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری

فتویٰ نمبر: Nor-11624

تاریخ اجراء: 29 شوال المکرم 1442 ھ / 10 جون 2021 ء