پھوڑے پھنسی سے نکلنے والے پانی کا شرعی حکم

پھوڑے، پھنسی سے نکلنے والے پانی کی پاکی اور ناپاکی کے متعلق تفصیل

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ جسم میں پھوڑا یا پھنسی ہوگئی ہو اور اس سے خون، پانی یا پیپ نکلے تو کیا وہ ناپاک ہوگی، میں نے علمائے کرام سے سنا ہے کہ "جس خون میں بہنے کی صلاحیت ہو وہ ناپاک ہے" ایک شخص کے چہرے پر دانے ہیں، اس سے پانی نہیں بہتا لیکن وضو کرتے وقت جب چہرے پر پانی بہاتا ہے تو پھوڑے سے تھوڑے خون والی پیپ اس پانی میں ملکر بہتی ہے، کیا اس صورت میں بھی وہ خون ناپاک ہوگا حالانکہ اس میں خود بہنے کی صلاحیت نہیں تھی، وضو کے پانی سے مل کر بہا ہے؟ اس حوالے سے شرعی رہنمائی فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

صورت مسئولہ میں چہرے کے دانوں سے جو پانی نکلے اگروہ خود بہنے کے قابل ہے تو یہ پانی ناپاک بھی ہے اور لباس یا بدن پر لگے گا تو لباس یا بدن بھی ناپاک ہو جائےگا اور اگر یہ پیپ والا پانی خود بہنے کے قابل نہیں بلکہ صرف ظاہر ہوتا ہے یا فقط ابھر آتا ہے مگر بہہ نہیں سکتا یا فقط چپچپاہٹ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو یہ پانی ناپاک نہیں ہے، اگرچہ وضو کے پانی سے دھل کر بہتا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ فقہائے کرام نے اصول بیان کیا ہے کہ زخم سے نکلنے والا خون، پیپ یا پانی اسی وقت ناپاک ہوتا ہے جبکہ وہ بذات خود بہنے کے قابل ہو، اگر اس میں بہنے کی صلاحیت نہیں تو وہ پاک ہے اگرچہ صاف پانی لگنے سے بہہ جاتا ہو کہ اس کا اعتبار نہیں ہے۔

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے

"(و) کل (ما لیس بحدث)۔۔۔۔ کقیئ قلیل و دم لو ترک لم یسل (لیس بنجس)"

یعنی ہر وہ چیز جو حدث نہ ہو وہ نجس بھی نہیں جیسا کہ تھوڑی سی قے جو منہ بھر نہ ہو اور وہ خون کہ جسے چھوڑ دیا جائے تو وہ نہ بہے۔

(لیس بنجس)کے تحت رد المحتار میں ہے

"ای لا یعرض لہ وصف النجاسۃبسبب خروجہ"

ترجمہ: یعنی ان اشیاء کے نکلنے کے سبب نجاست کا وصف انہیں لاحق نہیں ہوتا، لہذا یہ نجس بھی نہیں۔ (تنویر الابصارمع در مختار و رد المحتار، جلد 1، صفحہ 294، طبع: کوئٹہ)

فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

"الواجب ان تکون فی نفسہ قوۃ التجاوز من محلہ لا ان یمسہ شیئ فیلتصق بہ و ھذا اظھر من ان یظھر"

ترجمہ: ضروری ہے کہ خون وغیرہ میں بذات خود اپنی جگہ سے تجاوز کرنے کی صلاحیت ہو نہ کہ کوئی چیز اس سے ملے اور خون اس سے چپک جائے اور یہ قید اتنی واضح ہے کہ اسے ظاہر کی کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد 1، حصہ 1، صفحہ 378، طبع: رضافاؤنڈیشن لاہور)

اسی طرح فتاوی رضویہ میں ایک مقام پر لکھتے ہیں: "اگر خارش کے دانوں پر کپڑا مختلف جگہ سے بار بار لگا اور دانوں کے منہ پر جو چیک پیدا ہوتی ہے جس میں خود باہر آنے اور بہنے کی قوت نہیں ہوتی اگر دیر گزرے تو وہ وہاں کی وہیں رہے گی اُس چپک سے سارا کپڑا بھر گیا ناپاک نہ ہوگا، یہی حالت خو ن کی ہے جبکہ اُس میں قوتِ سیلان نہ ہو یعنی ظنِ غالب سے معلوم ہوا کہ اگر کپڑا نہ لگتا اور اُس کا راستہ کھُلا رہتا جب بھی وہ باہر نہ آتا اپنی جگہ ہی پر رہتا۔" ( فتاوی رضویہ، جلد 1، حصہ 1، صفحہ 370 ،371، طبع: رضافاؤنڈیشن لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3905

تاریخ اجراء: 08 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 05 جون 2025 ء