دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
اگر کسی عورت کے مثانے سے انفیکشن کی وجہ سے پیپ خارج ہوتی رہتی ہو تو اس صورت میں کیا اسے ہر نماز کے وقت غسل کرکے نماز پڑھنی ہوگی یا غسل کیے بغیر صرف وضو کر کے نماز پڑھ سکتی ہے؟ کیا اس سے وضو ٹوٹ جائے گا یا نہیں؟ اس صورت حال میں کیا کیا جائے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں بیان کردہ کیفیت کو طبّی اصطلاح میں پیوریا (Pyuria) کہا جاتا ہے۔ اس میں پیپ عموماً پیشاب کے ساتھ اور شدید حالت میں پیشاب کے بغیر بھی خارج ہو تی ہے۔شرعی اعتبار سے پیپ نجاست غلیظہ اور ناپاک ہے، جسم اور کپڑوں کے جس حصے پر لگ جائے اُسے بھی ناپاک کردیتی ہے، اس سے غسل لازم نہیں ہوتابلکہ صرف وضو ٹوٹتاہے۔ اولاتولازم ہے کہ
اس حالت میں نماز سے متعلق دو ممکنہ صورتیں ہوں گی:
(1)اگر پیپ اس تسلسل سے بہے کہ پورا نماز کا وقت گزر جائے اور وضو کرکے فرض نماز ادا کرنا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں عورت شرعاً معذور ہوگی، اسے ہر فرض نماز کے وقت وضو کرنا ہوگا، اور اس وضو سے جتنی نمازیں چاہے پڑھ سکتی ہے، دورانِ نماز بھی پیپ نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ البتہ !وضو توڑنے والی کوئی دوسری چیزپائے جانے سے اوراسی طرح نماز کا وقت ختم ہونے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ جب تک ہر نماز کے وقت میں کم از کم ایک بار پیپ بہے، وہ معذور رہے گی، اور اگر پورا وقت گزرگیا اور ایک وقت بھی پیپ نہ بہی تو معذوری ختم ہو جائے گی۔
نوٹ: اس میں ایک بات کاخیال رکھناضروری ہے کہ اگر روئی وغیرہ رکھ کر پیپ روکنا ممکن ہو، کم ازکم اتنی دیرکہ جس میں وضو کرکے مکمل طہارت کے ساتھ فرض ادا کرسکے تو ایسا کرنا لازم ہوگا اور اس صورت میں عورت شرعی معذور نہیں بنے گی۔
(2)اگر پیپ کا بہنا اتنے تسلسل سے نہ ہو کہ عورت شرعاً معذور بنے تو ہر بار پیپ نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا، اور نماز کے دوران پیپ بہے تو نماز بھی ٹوٹ جائے گی، نیا وضو کرکے دوبارہ پڑھنی ہوگی۔
نوٹ: اگر پیپ سے کپڑے ایک درہم یا اس سے زیادہ ناپاک ہو جائیں تو نماز سے پہلے اُنہیں پاک کرنا یاپاک کپڑے تبدیل کرنا، ضروری ہوگا۔ شرعی معذور ہونےکی صورت میں بھی پاک کرنے یا دوسرے پاک کپڑے تبدیل کرنے کے بعد اگر ایک درہم سے زِیادہ نجس ہو گیا اور جانتی ہے کہ اتنا موقع ہے کہ اسے دھو کر یاپاک کپڑے تبدیل کرکےپاک کپڑوں سے نماز پڑھ لوں گی تو دھو کر یاتبدیل کرکے نماز پڑھنا فرض ہے، اوراگر جانتی ہے کہ نماز پڑھتے پڑھتے پھر اتنا ہی نجس ہو جائے گا تو دھونا اور تبدیل کرنا، ضروری نہیں، اُسی سے پڑھے اگرچہ مصلیٰ بھی آلودہ ہو جائے، کچھ حَرَج نہیں۔ اور اگر درہم کے برابر ہے تو پہلی صورت میں (یعنی جس میں پتاہے کہ اتنا موقع ہے کہ اسے دھو کر یا تبدیل کرکے پاک کپڑوں سے نمازپڑھ لوں گی تو) دھونا یاتبدیل کرنا، واجب ہے اور درہم سے کم ہے تو سنّت۔ اور دوسری صورت(یعنی نماز پڑھنے تک پھر سے ناپاک ہونے) میں مطلقاً (چاہے درہم کے برابر ناپاک ہو یا اس سے کم) نہ دھونے اور تبدیل نہ کرنے میں کوئی حَرَج نہیں۔
جو رطوبت بیماری کی وجہ سے نکلے وہ نجس یعنی ناپاک ہے، اس سے وضو ٹوٹ جائے گا، جیسا کہ غنیۃ المستملی میں ہے:
’’کل ما یخرج من علۃ من أی موضع کان کالاذن والثدی والسرۃ و نحوھا فانہ ناقض علی الاصح لانہ صدید‘‘
ترجمہ: ہر وہ رطوبت جو کسی بھی جگہ سے بیماری کی وجہ سے نکلے، جیسے کان، پستان، ناف وغیرہ سے، تو اصح قول کے مطابق وہ رطوبت وضو کو توڑدے گی کیونکہ یہ صدید(یعنی خون ملا پیپ) ہے۔ (غنیۃ المستملی، نواقض وضو، صفحہ116، مطبوعہ کوئٹہ)
شرعی معذور کے احکام بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بہارشریعت میں فرماتے ہیں: ”ہر وہ شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہے کہ ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وُضو کے ساتھ نمازِ فرض ادا نہ کرسکا وہ معذور ہے، اس کا بھی یہی حکم ہے کہ وقت میں وُضو کرلے اور آخر وقت تک جتنی نمازیں چاہے اس وُضو سے پڑھے، اس بیماری سے اس کا وُضو نہیں جاتا۔۔۔جب عذر ثابت ہو گیا تو جب تک ہر وقت میں ایک ایک بار بھی وہ چیز پائی جائے معذور ہی رہے گا ‘‘۔
مزید فرماتے ہیں: ” فرض نماز کا وقت جانے سے معذور کا وُضو ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔ معذور کا وُضو اس چیز سے نہیں جاتا جس کے سبب معذور ہے، ہاں اگر کوئی دوسری چیزوُضو توڑنے والی پائی گئی تو وُضو جاتا رہا۔ مثلاً جس کو قطرے کا مرض ہے، ہوا نکلنے سے اس کا وُضو جاتا رہے گا اور جس کو ہوا نکلنے کا مرض ہے، قطرے سے وُضو جاتا رہے گا۔۔۔اگر کسی ترکیب سے عذر جاتا رہے یا اس میں کمی ہوجائے تو اس ترکیب کا کرنا فرض ہے، مثلاً کھڑے ہوکر پڑھنے سے خون بہتا ہے اور بیٹھ کر پڑھے تو نہ بہے گا تو بیٹھ کر پڑھنا فرض ہے۔ (بہار شریعت، جلد1، حصہ2، صفحہ385تا387، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بہار شریعت میں ہے: ’’معذور کو ایسا عذر ہے جس کے سبب کپڑے نجس ہو جاتے ہیں تو اگر ایک درم سے زِیادہ نجس ہو گیا اور جانتا ہے کہ اتنا موقع ہے کہ اسے دھو کر پاک کپڑوں سے نماز پڑھ لوں گا تو دھو کر نماز پڑھنا فرض ہے اور اگر جانتا ہے کہ نماز پڑھتے پڑھتے پھر اتنا ہی نجس ہو جائے گا تو دھونا ضروری نہیں اُسی سے پڑھے اگرچہ مصلیٰ بھی آلودہ ہو جائے کچھ حَرَج نہیں اور اگر درہم کے برابر ہے تو پہلی صورت میں دھونا واجب اور درہم سے کم ہے تو سنّت اور دوسری صورت میں مطلقاً نہ دھونے میں کوئی حَرَج نہیں۔" (بہار شریعت، جلد1، حصہ2، صفحہ387، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4352
تاریخ اجراء: 28ربیع الثانی1447 ھ/21اکتوبر2025 ء