
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
صوفہ پاک کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
سوال میں بیان کردہ مسئلے کی بنیادی طور پر ممکنہ دو صورتیں ہوسکتی ہیں:
(1) صوفے کی پوشش ایسی چیز کی بنی ہوئی ہوکہ اس میں مسام ہوں اوراس میں لیکوڈ چیز جذب ہوجاتی ہو(جیساکہ عموماً صوفے ایسی ہی ہوتی ہیں)نیز اس پر کوئی ایسی چیز یا کور بھی نہ چڑھایا گیا ہو، جو نجاست، پیشاب وغیرہ جذب ہونے سے مانع ہو، تو اس کو پاک کرنے کے لیے دھونا ضروری ہے، خواہ نجاست کی تری ابھی موجود ہو یا خشک ہو چکی ہو۔ اب اگر اور وہ ایسی چیز سے ہو کہ جس کو نچوڑا نہ جا سکتا ہو، تو اس کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو ایک بار دھو کر چھوڑ دیا جائے، یہاں تک کہ پانی ٹپکنا رُک جائے،یونہی دو مرتبہ مزید دھویا جائے اور تیسری بار کے بعد جب پانی ٹپکنا بند ہو جائے، تو وہ پاک ہوجائے گا، البتہ ہر بار اسے خشک کرنا ضروری نہیں۔
اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس پر اس قدر پانی بہایاجائے یا بہتے پانی میں اتنی دیر رکھ دیا جائے کہ نجاست زائل ہونے کاظن غالب ہو جائے، تو بھی وہ صوفہ پاک ہو جائے گا کہ اصل مقصود ازالۂ نجاست یعنی ناپاکی کو دور کرنا ہے۔
(2) اور اگر صوفے کی پوشش ایسی چیز کی بنی ہوئی ہو یا اس پر کَوَر،وغیرہ کوئی ایسی چیز چڑھائی گئی ہو،جس میں مسام نہ ہوں اورکوئی لیکوڈچیزاس میں جذب نہ ہوسکتی ہو،جیسے ریگزین یاچمڑے نما، پوشش، نیز اس میں کوئی دراڑ،وغیرہ بھی نہ ہو، الغرض مثلِ شیشہ و تلوار غيرمسام والی ہو، تو ایسی صورت میں حکم یہ ہےکہ صرف تین بار دھو ڈالنے سے ہی وہ صوفہ پاک ہو جائےگا، اسے اتنی دیر تک چھوڑنا ضروری نہیں کہ پانی ٹپکنا بند ہو جائے۔
اور اس صورت میں اگر دھونے کی بجائے کسی کپڑے سے اس طرح پُونچھ کر صاف کر دیا کہ نجاست کا اثر ختم ہو جائے، تو بھی وہ پاک ہو جائے گا، مگر کپڑے، وغیرہ سے صاف کرنے میں ان دو باتوں کی احتیاط ضروری ہے: (الف) صوفے کی پوشش یا کَور پر کہیں دراڑ نہ ہو یا کہیں سے کچھ اکھڑا یا پٹھا ہوا حصہ نہ ہو، الغرض کسی طرح کا بھی کُھردرا پن ہونے کی صورت میں اس حصے کا پونچھنا کافی نہیں ہو گا،بلکہ دھو کر پاک کرنا ضروری ہوگا۔ (ب) نجاست صاف کرنے کے لیے جب ایک بار گیلے کپڑے کو استعمال کر لیا، تو دوسری بار اسی سے پونچھنے کی اجازت نہیں، بلکہ یا تو الگ سے پاک اور گیلا کپڑا لے کر اس سے صاف کیا جائے یا پہلے والے کو دھو کر پاک کر کے دوبارہ استعمال کیا جائے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے
الجلد المدبوغ إذا أصابته نجاسة إن كان صلبا لا ينشف النجاسة لصلابته يطهر بالغسل في قولهم و إن كان ينشف النجاسة إن أمكن عصره يغسل ثلاثا و يعصر في كل مرة فيطهر و إن كان لا يمكن عصره عند أبي يوسف يغسل ثلاثا ويجفف في كل مرة. كذا في فتاوى قاضي خان
ترجمہ: اگر دباغت دیا ہوا چمڑا نجاست سے آلودہ ہو جائے، تو اگر وہ سخت ہو اور اپنی سختی کی وجہ سے نجاست کو جذب نہ کرتا ہو، تو ان کے قول کے مطابق صرف دھونے سے پاک ہو جاتا ہے۔ اور اگر وہ نجاست کو جذب کرتا ہو، اور نچوڑا جا سکتا ہو، تو اسے تین بار دھونے اور ہر بار نچوڑنے سے وہ پاک ہو جائے گا۔ اور اگر نچوڑا نہ جا سکتا ہو، تو امام ابو یوسف کے نزدیک اسے تین بار دھونے اور ہر بار خشک کرنے سے (وہ پاک ہو جائے گا)۔ (فتاویٰ عالمگیری، جلد 1، صفحہ 43، دار الفکر، بیروت)
فتاوی عالمگیری میں ہے
و ما لا ينعصر يطهر بالغسل ثلاث مرات و التجفيف في كل مرة؛ لأن للتجفيف أثرا في استخراج النجاسة وحد التجفيف أن يخليه حتى ينقطع التقاطر ولا يشترط فيه اليبس. هكذا في التبيين هذا إذا تشربت النجاسة كثيرا وإن لم تتشرب فيه أو تشربت قليلا يطهر بالغسل ثلاثا. هكذا في محيط السرخسي ۔۔۔ البساط النجس إذا جعل في نهر و ترك ليلة حتى جرى الماء عليه طهر كذا في الخلاصة و هو الصحيح هكذا في شرح منية المصلي لإبراهيم الحلبي۔۔۔ إذا وقع على الحديد الصقيل الغير الخشن كالسيف و السكين والمرآة ونحوها نجاسة من غير أن يموه بها فكما يطهر بالغسل يطهر بالمسح بخرقة طاهرة. هكذا في المحيط ولا فرق بين الرطب واليابس ولا بين ما له جرم وما لا جرم له. كذا في التبيين وهو المختار للفتوى. كذا في العناية و لو كان خشنا أو منقوشا لا يطهر بالمسح. كذا في التبيين
ترجمہ: جو چیز نچوڑی نہیں جا سکتی، وہ تین مرتبہ دھونے اور ہر بار خشک کرنے سے پاک ہو جاتی ہے؛ کیونکہ خشک کرنے سے نجاست نکالنے میں اثر ہوتا ہے۔ اور خشک کرنے کی حد یہ ہے کہ اس کو اتنا چھوڑ دیا جائے کہ قطرے ٹپکنا بند ہو جائیں، اور اس میں مکمل خشک ہونا شرط نہیں۔ ایسا ہی التبیین میں ہے، یہ اس صورت میں ہے جب نجاست بہت زیادہ جذب ہو گئی ہو، اور اگر نجاست جذب نہ ہوئی ہو یا تھوڑی جذب ہوئی ہو تو تین بار دھونے سے پاک ہو جائے گی۔ ایسا ہی محيط السرخسي میں ہے۔ نجس بساط (قالین، چٹائی وغیرہ) کو اگر کسی نہر میں ڈال دیا جائے اور رات بھر چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ اس پر پانی بہتا رہے، تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی الخلاصہ میں ہے اور یہی صحیح قول ہے، ایسا ہی شرح منیۃالمصلي از ابراہیم الحلبي میں ہے۔ اگر لوہے کی چیز جیسےتلوار، چھری، آئینہ اور اس جیسی چیزوں پر، جو ہموار ہو اور کھردری نہ ہو، کوئی نجاست لگ جائےجبکہ اس کی اس پرملمع سازی نہ کی گئی ہو ، تو جیسے وہ دھونے سے پاک ہو جاتی ہے، ویسے ہی کسی پاک کپڑے سے پونچھنے سے بھی پاک ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی المحيط میں ہے۔ اس میں تر و خشک، یا جس چیز کا جرم ہو یا نہ ہو، سب برابر ہیں۔ ایسا ہی التبيين میں ہے، اور یہی فتویٰ کے لیے پسندیدہ قول ہے۔ ایسا ہی العنایہ میں ہے۔ اور اگر وہ چیز کھردری ہو یا اس پر نقش و نگار ہوں، تو صرف پونچھنے سے پاک نہیں ہوگی۔ ایسا ہی التبيين میں ہے۔(فتاوی عالمگیری، جلد 1، صفحہ41 تا 43، دار الفکر، بیروت)
بہارِ شریعت میں ہے ”جو چیز نچوڑنے کے قابل نہیں ہے(جیسے چٹائی، برتن، جُوتا وغیرہ) اس کو دھو کر چھوڑ دیں کہ پانی ٹپکنا موقوف ہو جائے، یوہیں دو مرتبہ اَور دھوئیں تیسری مرتبہ جب پانی ٹپکنا بند ہو گیا وہ چیز پاک ہو گئی اسے ہر مرتبہ کے بعدسُوکھانا ضروری نہیں۔ یوہیں جو کپڑا اپنی نازکی کے سبب نچوڑنے کے قابل نہیں اسے بھی یوہیں پاک کیا جائے۔۔۔ اگر ایسی چیز ہو کہ اس میں نَجاست جذب نہ ہو ئی، جیسے چینی کے برتن، یا مٹی کا پرانا استعمالی چکنا برتن یالوہے، تانبے، پیتل وغیرہ دھاتوں کی چیزیں تو اسے فقط تین بار دھو لینا کافی ہے، اس کی بھی ضرورت نہیں کہ اسے اتنی دیر تک چھوڑ دیں کہ پانی ٹپکنا موقوف ہو جائے۔۔۔ دَری یا ٹاٹ یا کوئی ناپاک کپڑا بہتے پانی میں رات بھر پڑا رہنے دیں پاک ہو جائے گا اور اصل یہ ہے کہ جتنی دیر میں یہ ظن غالب ہو جائے کہ پانی نَجاست کو بہالے گیا پاک ہو گیا، کہ بہتے پانی سے پاک کرنے میں نچوڑنا شرط نہیں۔۔۔ لوہے کی چیز جیسے چُھری، چاقو، تلوار وغیرہ جس میں نہ زنگ ہونہ نقش و نگار نجس ہو جائے، تو اچھی طرح پونچھ ڈالنے سے پاک ہو جائے گی اور اس صورت میں نَجاست کے دَلدار یا پتلی ہونے میں کچھ فرق نہیں۔ یوہیں چاندی، سونے، پیتل، گلٹ اور ہر قسم کی دھات کی چیزیں پونچھنے سے پاک ہو جاتی ہیں بشرطیکہ نقشی نہ ہوں اور اگر نقشی ہوں یا لوہے میں زنگ ہو تو دھونا ضروری ہے پونچھنے سے پاک نہ ہوں گی۔۔۔ آئینہ اورشیشے کی تمام چیزیں اور چینی کے برتن یا مٹی کے روغنی برتن یا پالش کی ہوئی لکڑی غرض وہ تمام چیزیں جن میں مسام نہ ہوں کپڑے یا پَتّے سے اس قدر پونچھ لی جائیں کہ اثر بالکل جاتا رہے پاک ہو جاتی ہیں۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 399 ،400، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بہارِ شریعت میں ہے "پکایا ہوا چمڑا ناپاک ہو گیا، تو اگر اسے نچوڑ سکتے ہیں تو نچوڑ یں ورنہ تین مرتبہ دھوئیں اور ہر مرتبہ اتنی دیر تک چھوڑ دیں کہ پانی ٹپکنا موقوف ہو جائے۔" (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 399، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو الفیضان مولانا عرفان احمد عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4018
تاریخ اجراء: 18 محرم الحرام 1447ھ / 14 جولائی 2025ء