آنکھوں میں سرمہ لگا ہو تو وضو ہوجائیگا؟

آنکھوں میں سرمہ لگا ہو تو کیا وضو ہو جائے گا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

اگر آنکھ میں سرمہ لگا ہے، تو وضو میں سرمہ صاف کرنا ضروری ہے یا بنا صاف کیے وضو ہو جائے گا؟ کسی نے کہا ہے کہ سرمہ آنکھ میں جم جاتا ہے، جرم بن جاتا ہے، سرمہ لگا ہو تو وضو مکمل نہیں ہوتا۔ اب کیا کرنا ہے؟ راہنمائی فرمائیں۔ سرمہ لگا ہو تو وضو ہوا یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اولاً یاد رہے کہ وضو یا غسل میں آنکھ کے اندرونی حصہ کو دھونا ضروری نہیں، یعنی آنکھوں کے اندر والے حصے میں پانی پہنچانا ضروری نہیں، لہٰذا اگر سرمہ آنکھ کے اندرونی حصہ میں لگا رہ گیا، تو اسے زائل نہ کرنے کی بنا پر وضو یا غسل میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ہاں! آنکھوں کی پلکوں اور آنکھوں کے کونوں کو، جو ناک کی طرف ہوتے ہیں، انہیں وضو اور غسل میں دھونا فرض ہے، بعض اوقات جب آنکھ میں سرمہ لگائیں، تو ان جگہوں پر سرمہ جم بھی جاتا ہے اور اس کا جرم بھی ہوتا ہے اور معلوم ہونے کی صورت میں آنکھوں کے ان حصوں کو دھو کر اس کو اتارنے اور زائل کرنے میں کوئی مشقت یا ضرر بھی نہیں ہے، لہٰذا جب معلوم ہو کہ سرمہ پلکوں یا اِن کونوں میں جما ہوا ہے، تو اسے دھو کر اتارنا فرض ہے، ورنہ وضو اور غسل نہیں ہو گا، لیکن یہ (سرمہ) ان چیزوں میں سے ہے کہ جس سے انسان کو عموماً یا خصوصاً واسطہ پڑتا رہتا ہے اور اس کی مکمل دیکھ بھال اور اس کے آنکھ میں لگے ہونے یا نہ ہونے کا خیال رکھنے میں دشواری اور حرج ہوتا ہے، لہٰذا فقہائے کرام نے آسانی کے پیشِ نظر یہ حکم ارشاد فرمایا ہے کہ سرمہ اگر آنکھ کے ان حصوں میں لگا ہوا رہ گیا، اور پتہ نہ چلا اور وضو کر کے نماز ادا کرلی، تو حرج اور دشواری سے بچاؤ کے لیے وضو اور نماز دونوں ہو جائیں گے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ اگر معلوم نہیں تھا، اور وضو کرکے نماز ادا کرلی تھی۔ لیکن اگر اب معلوم ہو گیا تو لازم ہے کہ اسے دور کر کے وہاں پانی بہا دے، پھر اگلی کوئی نماز ادا کرے، کیونکہ اگر پتہ چل جانے کے بعد ایسا نہ کیا، تو اب بعد میں پڑھی جانے والی نمازیں نہیں ہوں گی۔

فتاوٰی عالمگیری میں ہے

و إيصال الماء إلى داخل العينين ليس بواجب و لا سنة و لا يتكلف في الإغماض و الفتح حتى يصل الماء إلى الأشفار و جوانب العينين كذا في الظهيرية

ترجمہ: (وضو میں) پانی کو آنکھ کے اندرونی حصے میں پہنچانا نہ تو واجب ہے اور نہ ہی سنت ہے۔ اور وہ آنکھیں بند کرنے اور کھولنے میں تکلف نہیں کرے گا یہاں تک کہ پانی آنکھوں کے کناروں اور پلکوں تک پہنچ جائے، ایسا ہی ظہیریہ میں ہے۔ (فتاوٰی عالمگیری، کتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 4، مطبوعہ: بیروت)

امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”حرج کی تین صورتیں ہیں: ایک یہ کہ وہاں پانی پہنچانے میں مضرت ہو ،جیسے آنکھ کے اندر۔ دوم مشقت ہو، جیسے عورت کی گندھی ہوئی چوٹی۔ سوم بعد علم واطلاع کوئی ضرر و مشقت تو نہیں، مگر اس کی نگہداشت، اس کی دیکھ بھال میں دقت ہے، جیسے مکھی مچھر کی بیٹ یا الجھا ہوا، گرہ کھایا ہوا بال۔ قسمِ اول ودوم کی معافی توظاہر اور قسمِ سوم میں بعدِ اطلاع ازالۂ مانع ضرور ہے، مثلا: جہاں مذکورہ صورتوں میں مہندی، سرمہ، آٹا، روشنائی، رنگ، بیٹ وغیرہ سے کوئی چیز جمی ہوئی دیکھ (دِکھ) پائی، تو اب یہ نہ ہو کہ اسے یوں ہی رہنے دے اور پانی اوپر سے بہادے، بلکہ چھُڑالے کہ آخر ازالہ میں توکوئی حرج تھا ہی نہیں، تعاہد میں تھا، بعد اطلاع اس کی حاجت نہ رہی۔

و من المعلوم ان ماکان لضرورۃ تقدربقدرھا

 (اور یہ بات معلوم ہے کہ جو حکم کسی ضرورت کے باعث ہو ،وہ قدر ضرورت ہی کی حد پر رہے گا)۔ (فتاوی رضویہ، جلد 1، صفحہ 611، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”آنکھ کے کوئے (یعنی ناک کی طرف آنکھ کا کونہ) پر پانی بہانا فرض ہے، مگر سرمہ کا جرم کوئے یا پَلک میں رہ گیا اور وُضو کرلیا اور اِطلاع نہ ہوئی اور نماز پڑھ لی ، تو حَرج نہیں، نماز ہوگئی، وُضو بھی ہوگیا اور اگر معلوم ہے، تو اسے چُھڑا کر پانی بہانا ضرور ہے۔پَلک کا ہر بال پُورا دھونا فرض ہے، اگر اس میں کیچڑ وغیرہ کوئی سَخْت چیز جم گئی ہو ، تو چُھڑا نا فرض ہے۔ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 290، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا عبد الرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4302

تاریخ اجراء: 13 ربیع الآخر 1447ھ / 07 اکتوبر 2025ء