دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
الٹراساونڈ کرتے وقت جسم پر لیکوڈ لگایا جاتا ہے، تو کیا اس کے بعد غسل کرنا ہوگا؟ یا یونہی نماز پڑھ سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
محض کسی لیکوڈکے جسم پر لگانے سے غسل فرض نہیں ہوتا (خواہ وہ لیکوڈ پاک ہو یا ناپاک)، غسل فرض ہونے کے اسباب دوسرے ہیں، جن کا بہارشریعت وغیرہ میں ذکرہے۔ نیز مذکورہ بالا لیکوڈ میں جب تک کسی ناپاک چیز کی ملاوٹ کا یقینی علم نہ ہو، تب تک اس کو نجس قرار نہیں دیا جا سکتا، لہذا اس کو دھوئے بغیر بھی نماز ادا کرسکتے ہیں۔
اور بالفرض اگر کسی لیکوڈ کے بارے میں یقینی معلومات ہوں کہ اس میں کوئی نجس چیز شامل ہے، اور وہ جسم پرلگادیاگیا، اور وہ مانع نماز مقدار میں بھی تھا، تو بھی محض نجس حصے کو دھو لینے سے یا پاک گیلے کپڑے سے اس قدر پونچھنے سے کہ نجاست کا اثر باقی نہ رہے، وہ حصہ پاک ہوجائے گااور نماز کی ادائیگی جائز ہو جائے گی، غسل تب بھی لازم نہیں ہوگا۔
الاشباہ والنظائر میں ہے ”شک فی وجود النجس فالاصل بقاء الطھارۃ“ ترجمہ: نجاست کے پائے جانے میں شک ہو، تو اصل طہارت کا باقی رہنا ہے۔ (الاشباہ و النظائر، صفحہ 61، مطبوعہ: کراچی)
سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: ” شریعتِ مطہرہ میں طہارت وحلت اصل ہیں اور ان کا ثبوت خود حاصل کہ اپنے اثبات میں کسی دلیل کا محتاج نہیں اور حرمت و نجاست عارضی کہ ان کے ثبوت کو دلیل خاص درکار اور محض شکوک وظنون سے ان کا اثبات ناممکن کہ طہارت وحلت پر بوجہ اصالت جو یقین تھا اُس کا زوال بھی اس کے مثل یقین ہی سے متصور، نرا ظن لاحق یقین سابق کے حکم کو رفع نہیں کرتا یہ شرع شریف کا ضابطہ عظیمہ ہے، جس پر ہزارہا احکام متفرع۔“ (فتاوی رضویہ، جلد4، صفحہ464، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ”فقیر غفراللہ تعالی اسی پر فتویٰ دیتا ہے کہ بدن سے نجاست دُور کرنے میں دھونا یعنی پانی وغیرہ بہانا شرط نہیں، بلکہ اگر پاک کپڑا پانی میں بھگو کر اس قدر پونچھیں کہ نجاست مرئیہ ہے، تو اس کا اثر نہ رہے، مگر اُتنا جس کا ازالہ شاق ہو (دور کرنا مشکل ہو) اور غیر مرئیہ ہے، تو ظن غالب ہوجائے کہ اب باقی نہ رہی اور ہر بار کپڑا تازہ لیں یا اُسی کو پاک کرلیا کریں، تو بدن پاک ہوجائے گا، اگرچہ ایک قطرہ پانی کا نہ بہے۔ یہ مذہب ہمارے امامِ مذہب سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے اور یہاں امام محمد بھی اُن کے موافق ہیں اور بہت اکابر ائمہ فتوی نے اسے اختیار فرمایا اور عامہ کتب معتبرہ مذہب میں بہت فروع اسی پر مبتنی ہیں، تو اس پر بے دغدغہ عمل کیا جاسکتا ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد4، صفحہ464، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-4518
تاریخ اجراء:14جمادی الثانی1447ھ/06دسمبر2025ء