
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
زیرِ زمین پانی کی ٹینکی میں اگر چوہا گر جائے اور اسے زندہ نکال لیا جائے، تو اس پانی سے وضو و غسل کرنے کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
عام طور پر گھروں کی زیر زمین یا اوپر بنی ٹینکی چھوٹی ہی ہوتی ہے یعنی وہ دہ در دہ (یعنی کل پیمائش دو سو پچیس اسکوائر فٹ) سے کم ہی ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے حکم یہ ہے کہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق سُوَر کے علاوہ کوئی اور جانور کنویں وغیرہ سے زندہ نکل آیا جبکہ اس کے جسم پر نجاست کا لگنا یقینی طور پر معلوم نہ ہو اور نہ ہی اس کا منہ پانی میں پڑا ہو تو اس کا پانی پاک رہے گا۔ ہاں! اگر اُس جانور کا منہ پانی میں پڑجائے تو اب جو حکم اس کے جھوٹے اور لعاب کا ہے وہی حکم اُس پانی کا ہوگا۔ جہاں تک چوہے کا معاملہ ہے تو چوہے کا جھوٹا شرعاً مکروہ ہوتا ہے۔ لہذا پوچھی گئی صورت میں حکمِ شرع یہ ہے کہ اس چوہے پر اگر کوئی نجاست لگی ہونامعلوم نہیں ، تو ٹینکی کا پانی پاک ہے، اُس پانی سے اگر کسی نے کپڑے دھوئے تو وہ کپڑے ناپاک نہیں کہلائیں گے، یونہی کسی نے وضو کیا تو اس کا وضو بھی ہوجائے گا۔ البتہ! اس میں اس کا تھوک بھی شامل ہو گیا ہو گا اس لئے بہتر یہ ہے کہ اس پانی کو فرش وغیرہ دھونے جیسے دیگر کاموں میں استعمال کر لیا جائے، اچھے پانی کے ہوتے ہوئے اس پانی کو وضو یا غسل کے کام نہ لایا جائے،ہاں! اس کے علاوہ اچھاپانی نہ ہو تو پھر اس سے وضوو غسل کرنے میں کسی قسم کاحرج نہیں۔
چنانچہ محیطِ برہانی میں ہے
إذا وقع في البئر فأرة۔۔۔ و أخرجت منها حية لا ينجس الماء۔۔۔ سؤر هذه الحيوانات مكروه
ترجمہ: جب کنویں میں چوہا گر گیا اور زندہ نکال لیا گیا، تو پانی نجس نہیں ہو گا۔ (المحیط البرھانی، جلد 1، صفحہ 101، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے
(و الثاني ما يستحب فيه نزح الماء) إذا وقع في البئر فأرة يستحب نزح عشرين دلوا و في السنور و الدجاجة المخلاة نزح أربعين؛ لأن سؤر هذه الحيوانات مكروه و الغالب أن الماء يصيب فم الواقع حتى لو تيقنا أن الماء لم يصب فم هذه الحيوانات لا ينزح شيء من الماء
ترجمہ: دوسری قسم وہ ہے جس میں پانی نکالنا مستحب ہے۔ جب کنویں میں چوہا گر جائے تو بیس ڈول نکالنا مستحب ہے اور بلی و آزاد پھرنے والی مرغی کے گرنے کی صورت میں چالیس ڈول نکالنا مستحب ہے۔ کیوں کہ ان جانوروں کا جھوٹا مکروہ ہے اور اکثر پانی ان کے منہ کو پہنچ جاتا ہے، اور اگر یقین ہو جائے کہ پانی ان جانوروں کے منہ کو نہیں پہنچا تو پانی نہیں نکالا جائے گا۔ (فتاویٰ عالمگیری، جلد 1، صفحہ 21، دار الفکر، بیروت)
ایک اور مقام پر ہے
الماء المكروه إذا توضأ به مع وجود الماء المطلق كان مكروها وعند عدمه لا يكون مكروها
ترجمہ: مطلق پانی کے ہوتے ہوئے مکروہ پانی سے وضو کیا تو یہ مکروہ ہے اور اچھا پانی نہ ہونےکی صورت میں کیا تو مکروہ نہیں۔(فتاویٰ عالمگیری، جلد 1، صفحہ 24، دار الفکر، بیروت)
بہارِ شریعت میں ہے ”گھر میں رہنے والے جانور جیسے بلی، چوہا، سانپ، چھپکلی کا جھوٹا مکروہ ہے۔۔۔ اچھا پانی ہوتے ہوئے مکروہ پانی سے وضو و غسل مکروہ اور اگر اچھا پانی موجود نہیں ، تو کوئی حرج نہیں۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 343، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
قانونِ شریعت میں ہے ”کنویں میں وہ جانور گرا جس کا جوٹھا پاک ہے (جیسے بکری وغیرہ) یا جوٹھا مکروہ ہے (جیسے مرغی چوہا وغیرہ) اور پانی کچھ نہ نکالا اور وضو کرلیا تو وضو ہوجائے گا۔“ (قانونِ شریعت، صفحہ 97، مطبوعہ مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4097
تاریخ اجراء: 10 صفر المظفر 1447ھ / 05 اگست 2025ء