فرض غسل میں زکام کی وجہ سے سر پر پانی نہ ڈالنا

غسلِ جنابت میں زکام کی وجہ سے سر پر پانی نہ ڈالنا

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

اگر کسی شخص پر  غسل جنابت فرض ہو جائے مگر اس کو  زُکام ہو، جس کی وجہ سے  نہانے میں سر پر پانی ڈالے گا تو زکام کے بڑھنے یا دیر  سے ٹھیک ہونے کا خطرہ ہو،تواکیا  اس حالت  میں اسےسر  پر پانی نہ ڈالنے کی اجازت ہوگی ،اس طرح کہ وہ سر پر پانی نہ ڈالے اور باقی   جسم پر   پانی بہا لے اور پورے سر کا اچھی طرح سے مسح کر لے ؟تو کیا اس طرح فرض  غسل ہوجائے گا اور اس غسل سے نمازیں ہوجائیں گی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

زُکام  میں  سر پر پانی ڈالنے سے ہر صورت میں  زُکام  کے بڑھنے،  یا دیر سے ٹھیک ہونے    کا خطرہ نہیں ہوتا، بلکہ اس میں  موسم  کی صورت حال  یعنی اس کے سَرد اور گرم ہونے  اور  زُکام کے نارمل اور شدیدہونے اورپانی کے ٹھنڈااورگرم ہونے وغیرہ   کے اعتبار سے  فرق پڑتا ہے۔ لہذا مریض کو موسم کی صورت حال اور زکام کی کیفیات اورمیسرپانی کی کنڈیشن کو دیکھ کر  فیصلہ کرنا ہوگا۔بہرحال حکم شرعی یہ  ہے کہ  اگر  زکام  میں گرم پانی   سر پر ڈالنے میں   زکام کے بڑھنے یا دیر سے ٹھیک ہونے کا  کوئی خطرہ نہ ہو، توصرف سرکی مقداربھرگرم پانی پر قدرت ہوتے ہوئے  گرم پانی  سر پر بہانا لازم ہوگا ،صرف  سر کا مسح کرلینا ہرگز    کافی نہ ہوگا،اوربقیہ جسم چاہے جس طرح کے پانی سے بھی دھولے ۔ البتہ اگرسرکے لیے گرم پانی میسر نہ ہو یا ٹھنڈے پانی کے گرم کرنے کا  انتظام نہ ہو،یا  موسم کے سرد ہونے، یا   زُکام کی شدت کی وجہ سے مطلقاً    ٹھنڈے گرم   ہر طرح کے پانی سے  زُکام کے بڑھنے یا دیر سےٹھیک ہونے کا صحیح  اندیشہ ہو،تو ان صورتوں میں مریض کو اجازت ہوگی کہ  بقیہ جسم پر پانی بہائے  اور  سر پر پانی سے مسح کرلے،یوں اس  کا فرض غسل  ادا  ہوجائے گا اور اس سے  نمازیں بھی درست ہوں گی۔لیکن پھر جب مرض اتنا  بہتر ہوجائے کہ اب    مثلا گرم پانی نقصان نہ دے گااورگرم پانی میسربھی ہے توفوراگرم پانی سےسردھولے،اب سردھوئے بغیرنمازنہ ہوگی یاڈائریکٹ کنڈیشن ایسی ہوگئی کہ کسی قسم کاپانی (چاہے ٹھنڈا ہویا گرم) اُس کے  سَر پر  بہانے سے کوئی    نقصان   نہ ہوگا،توفورا سر کو پانی سے دھولے،اب سردھوئے بغیرنمازنہ ہوگی ۔

خیال رہے ! زکام میں سر  پر پانی بہانے سے زکام کے بڑھنے، یا دیر سے ٹھیک ہونے میں مریض کا  اپنا محض وہم و  خیال کہ شاید پانی بہانے سے   زکام بڑھ جائے یا دیر سے ٹھیک ہو، یہ  ہرگز معتبر نہیں ، بلکہ اس کا ظن غالب ہونا ضروری ہے ،اور ظن غالب تین طرح سے حاصل ہوتا ہے،(۱) مریض کا  خود اپنا تجربہ ہو ،(۲) کوئی ایسی واضح علامت موجود ہو، جس سے  مرض کے بڑھنے یا دیر میں ٹھیک  ہونے  کا غالب گمان ہو،(۳)  کسی مسلمان غیرفاسق  ماہر  ڈاکٹرکے بتانے سے معلوم ہو۔

اوراگرکہیں غیرفاسق بغیرحرج شدیدکے میسرنہ ہو توضروری ہے کہ اس کی بات پرغوروفکرکرنے کےبعد دل جمتاہوکہ یہ ڈاکٹرخوامخواہ اس طرح کی بات نہیں کرتا،اوراس صورت میں بھی  اولادینی ذہن رکھنے والے سے رابطہ کیاجائے اوراحتیاط یہ ہے کہ دوتین مزیدماہرڈاکٹروں سے بھی اس بارے میں مشورہ کرلیاجائے ۔اسی طرح اگربغیرحرج شدیدکے مسلمان ہی میسرنہ ہوتواس حالت میں بھی ضروری ہے کہ اس کی بات پر غوروفکر کرنے کےبعد دل جمتاہوکہ یہ ڈاکٹرخوامخواہ اس طرح کی بات نہیں کرتا، اوراحتیاط یہ ہے کہ دوتین مزید ماہر ڈاکٹروں سے بھی اس بارے میں مشورہ کرلیاجائے ۔

بہرحال! جب  ان تین ذرائع میں سےکسی ذریعہ سے  ظن غالب ہوجائے،تو  سر پر مسح کی اجازت ہوگی۔

گرم پانی سے نقصان نہ ہوتا ہوتو گرم پانی  پر قدرت ہوتے ہوئے اس سے دھونا لازم ہوگا،چنانچہ در مختار میں ہے:

’’ لزوم غسل المحل ولو بماء حار،فان ضر مسحہ ‘‘

ترجمہ :زخم کی جگہ کو دھونا لازم ہے اگرچہ گرم پانی سے ہو(جبکہ گرم پانی پر قدرت ہو)،پھراگر  دھونا نقصان دہ ہو تو اُس عضو پر مسح کرے۔(درمختار مع رد المحتار،جلد1، صفحہ 280،دار الفکر،بیروت)

اگر پانی  مطلقاً نقصان پہنچاتا ہو تو اکثر  اعضاء کے صحیح ہونے کی صورت میں اُنہیں دھویا جائے گا اور جس جگہ مسئلہ ہو اُس پر مسح کرنا ہوگا،چنانچہ درمختار مع رد المحتار ميں ہے

"(وبعکسہ) وھو مالو كان أكثر الأعضاء صحيحا (یغسل الصحیح ويمسح الجريح) أي إن لم يضره "

ترجمہ:اور  اس کا عکس ہو یعنی   اگراکثر اعضاء صحیح ہوں تو صحیح والے حصہ کو دھوئے اور زخم والی جگہ پر مسح کرے یعنی جب مسح کرنا نقصان نہ دیتا ہو ۔(در مختار مع رد المحتار،جلد1 ،صفحہ257،دار الفکر،بیروت)

امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اگر  مضرت(نقصان) صرف ٹھنڈا پانی کرتا ہے گرم نہ کرے گا اور اسے گرم پانی پر قدرت ہے توبیشک پورا غسل کرے اتنی جگہ کو گرم پانی سے دھوئے باقی بدن گرم یاسرد جیسے سے چاہے،اور اگرہر طرح کا پانی مضر ہے، یا گرم مضر تو نہ ہوگا مگر اسے اس پر قدرت نہیں، تو ضرر کی جگہ بچا کر باقی بدن دھوئے اور اس موضع پر مسح کرلے ۔۔۔جب اتناآرام ہو کہ اب خود وہاں پانی بہانا مضر نہ ہوگا فوراً اُس بدن کو پانی سے دھولے غرض رخصت کے درجے بتادئے گئے ہیں جب تک کم درجہ کی رخصت میں کام نکلے اعلٰی درجہ کی اختیار نہ کرے اور جب کوئی نیچے کا درجہ قدرت میں آئے فوراً اُس تک تنزل کرآئے۔" (فتاوی رضویہ،جلد1،حصہ دوم،صفحہ 618،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور) 

مرض کے بڑھنے یا دیر سے ٹھیک ہونے کا  ثبوت کن چیزوں سے ہوگا،اس کے متعلق  فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:"یہ بات کہ فلاں امر ضرر دے گا کسی کافر یا کھلے فاسق یا ناقص طبیب کے بتائے سے ثابت نہیں ہوسکتی،یا تو خود اپنا تجربہ ہو کہ نقصان ہوتا ہے یا کوئی صاف علامت ایسی موجود ہو جس سے واقعی ظن غالب نقصان کا ہو یا طبیب حاذق مسلم  مستور بتائے جس کا کوئی فسق ظاہر نہ ہو۔" (فتاوی رضویہ،ج 1،حصہ دوم،ص 620،621،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

"مجلس شرعی کے فیصلے "نامی کتاب میں ہے "دین دارطبیب کی سخت کم یابی اورحرج شدیدکی وجہ سے اب فاسق اورکافرطبیب سے علاج کی اجازت ہے بشرطے کہ تحری ک بعدمریض کادل اس بات پرجمے کہ یہ طبیب خواہ مخواہ کوئی ایساعلاج تجویزنہیں کرتاکہ جس کے باعث ایک مسلمان کوکسی حرام کاارتکاب کرناپڑے ،اورجب فاسق،حاذق مسلم طبیب ملے توغیرمسلم کے علاج سے پرہیزکرے۔" (مجلس شرعی کے فیصلے،جلداول، ص317،دارالنعمان)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3869

تاریخ اجراء:28ذوالقعدۃ الحرام1446ھ/26مئی2025ء