Kya Aurat Hijre se Parda Karegi?

ہیجڑے سے عورت پردہ کرے گی؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9009

تاریخ اجراء:18 محرم   الحرام    1446 ھ / 25  جولائی 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ معاشر ے میں شادی، بیاہ یا بچے کی ولادت  کے موقع پر ہیجڑے   مبارک دینے کے لیے  گھروں میں آ جاتے ہیں، گھروں میں عورتیں بھی موجود ہوتی ہیں، تو  کیا  عورتوں کو ان کے سامنے جانا، جائز ہےیا نہیں؟کیا  ان  ہیجڑوں سے عورتوں کو پردہ کرنا لازم ہے یا نہیں؟ اس بارے میں  رہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   لغت اور ہمارے عرف  میں ہیجڑے کا  اطلاق   خُنثیٰ، مخنث ،خصی اور مجبوب وغیرہ  پر ہوتا ہے، ان سے پردے کے متعلق حکم یہ ہے کہ جس میں مرد  اور  عورت دونوں کی علامتیں ہوں یا دونوں نہ ہو ں تو وہ خنثیٰ ہے، اِس سے پردے کا شرعی حکم یہ ہے  کہ اگر اِس  میں عورتوں والی  علامات(کچھ جسمانی خصوصیات)غالب ہوں، تو  اِس سے پردہ لازم نہیں، بشرطیکہ اس میں فسق و فجور  موجود  نہ ہو،ورنہ فسق کی وجہ سے فاسقہ فاجرہ عورتوں کی طرح اس سے بھی پردہ لازم ہے  اور اگر  خنثی  میں مرد وں والی  علامات  غالب ہو ں،تواس کے مرد ہونے کی وجہ سے اس سے پردہ لازم ہے،لیکن اگر دونوں(مرد و عورت)کی علامات برابر ہو ں یا متعارض ہوں،تو یہ ”خنثی مُشْکَل“ کہلائے گااور اس سے  احتیاطاً  پردہ  کرنے کا حکم ہے۔

    دوسری طرح کے وہ افراد ہیں کہ حقیقت میں مرد ہیں ،لیکن چال ڈھال  اور حرکات وسکنات    وغیرہا میں عورتوں کے مشابہ ہوں،تو ان سے بھی پردہ لازم ہے کہ دونوں بہرحال مرد ہی ہیں۔  انہیں مخنث کہتے ہیں۔

   مخنث اورخنثی میں فرق ہے ،جیساکہ موسو عہ فقہیہ کویتیہ میں ہے :’’الفرق بين المخنث والخنثى: أن المخنث لا خفاء في ذكوريته وأما الخنثى فالحكم بكونه رجلا أو امرأة لا يتأتى إلا بتبين علامات الذكورة أو الأنوثة فيه “ترجمہ: مخنث اور خنثی میں فرق ہے کہ مخنث کے مرد ہونے میں کسی قسم کی پوشیدگی نہیں ،جبکہ خنثی کے مرد یا عورت ہونے میں دونوں علامتوں میں سے کسی علامت کا ہونا ضروری ہے۔(الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ،جلد 36،صفحہ 265،مطبوعہ دار السلاسل ،الکویت)

   عورتیں برے افعال کرنے والے بناوٹی  ہیجڑوں سے بھی پردہ کریں ،جیساکہ پردے  کے بارے میں نازل ہونے والی آیت ِ مبارکہ کے تحت  تفسیر صراط الجنان میں ہے:”یاد رہے کہ ائمہ حنفیہ کے نزدیک خصی اور عنین نظر کی حرمت کے معاملے میں اجنبی کا حکم رکھتے ہیں۔ اس طرح بُرے اَفعال کرنے والے ہیجڑو ں سے بھی پردہ کیا جائے، جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث سے ثابت ہے۔“(صراط الجنان ، پارہ 18،سورۃ المؤمنون،آیت :31،جلد6،صفحہ623، مطبوعہ  مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بناوٹی(زنانہ انداز  اختیار کرنے والے)ہیجڑوں پر لعنت   کی اور فرمایا کہ انہیں گھروں سے نکال دو،جیساکہ بخاری شریف میں ہے:”وعن ابن عباس  قال:«لعن النبي المخنثين من الرجال والمترجلات من النساء، وقال:«أخرجوهم من بيوتكم وأخرج فلانا، وأخرج فلانا “ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے  مردوں میں سے  زنانہ وضع اختیار کرنے والے مردوں  اور عورتوں میں سے مرد انہ وضع قطع اختیار کرنے والی عورتوں  پر لعنت فرمائی اور یہ حکم بھی  جاری کیا کہ انہیں اپنے گھروں سے نکال دو،فلاں کو نکال دو اور فلاں کو نکال دو۔(صحیح البخاری،رقم الحدیث:6834، جلد8، صفحہ 171، مطبوعہ دار طوق النجاة،بيروت)

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے  مخنث(جو حقیقت میں مرد ہو ،لیکن پیدائشی طور پر اس کے اعضا ء میں تکسر ہو اس )کا  گھر وں  میں داخلہ منع  فرمایا  تھا،جیساکہ صحیح بخاری میں اِسی نوعیت کے مخنث کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”لا يدخلن هؤلاء عليكن“ترجمہ: یہ مخنث  تمہارےپاس ہرگز نہ آیا کریں۔(صحیح البخاری، جلد7،صفحہ37،مطبوعہ دار طوق النجاة،بيروت)

   اس حدیث  میں عورتوں کے پاس مخنث  کے آنے کی سختی سے  ممانعت  بیان کی گئی ہے،جیساکہ     مرقاۃ المفاتیح  میں ہے:”(لا يدخلن) نهي مؤكد ۔۔۔ وهذا يدل على منع المخنث والخصي والمجبوب من الدخول على النساء“ترجمہ: (مخنث  گھروں میں داخل نہ ہوں)یہ تاکید کے ساتھ منع کیا ہے۔۔۔   عورتوں کے پاس  خصی، مجبوب اور ہیجڑوں کا آنا منع ہے،یہ حدیث اس پر دلیل ہے۔(مرقاۃ المفاتیح ،جلد6،صفحہ 263،مطبوعہ  دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   اس حدیث میں  ایسے مخنث کا ذکر ہے،جس کے اعضا میں پیدائشی طور  پر عورتوں والی حرکات سکنات تھیں   ،جیساکہ مرآۃ المناجیح میں ہے:”مخنث وہ ہے جو حرکات و سکنات، گفتار ورفتار میں عورتوں کی طرح ہو اگر قدرتی یہ حالت ہو تو وہ گنہگار نہیں اور اگر مرد ہے،مگر عورت کی شکل بناتا ہے،تو بفرمان حدیث ملعون ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد بننے والی عورتوں پر اور عورت بننے والے مردوں پر لعنت فرمائی، یہ قدرتی مخنث تھا۔ حضرت ام المؤمنین حضرت ام سلمہ نے سمجھا کہ یہ غیر اولی الاربہ میں داخل ہے جن سے پردہ نہیں،  اس لیے اسے گھر میں آنے کی اجازت دے دی حضورانور نے اس کی یہ گفتگو سن کر اسے غیر اولی الا ربہ میں داخل نہ فرمایا۔“(مراۃ المناجیح، جلد5، صفحہ23، 24، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ،گجرات)

   مخنث کی اقسام اور اس کے احکام کے متعلق   مبسوط للسرخسی میں ہے:”هو المخنث الذي لا يشتهي النساء والكلام في المخنث عندنا أنه إذا كان مخنثا في الردى من الأفعال فهو كغيره من الرجال بل من الفساق ينحى عن النساء وأما من كان في أعضائه لين وفي لسانه تكسر بأصل الخلقة ولا يشتهي النساء ولا يكون مخنثا في الردى من الأفعال فقد رخص بعض مشائخنا في ترك مثله مع النساء لما روي «أن مخنثا كان يدخل بعض بيوت رسول اللہ   حتى سمع منه رسول اللہ   كلمة فاحشة“قال لعمر بن أبي سلمة: لئن فتح اللہ الطائف على رسوله لأدلنك على ماوية بنت غيلان فإنها تقبل بأربع وتدبر بثمان فقال  ما كنت أعلم أنه يعرف مثل هذا أخرجوه» وقيل المراد بقوله تعالى ﴿أو التابعين﴾ [النور: ٣١] الأبله الذي لا يدري ما يصنع بالنساء وفي هذا كلام عندنا والأصح أن نقول قوله تعالى أو التابعين من المتشابه وقوله تعالى ﴿قل للمؤمنين يغضوا﴾ [النور: ٣٠] محكم فنأخذ بالمحكم فنقول: كل من كان من الرجال فلا يحل لها أن تبدي موضع الزينة الباطنة بين يديه ولا يحل له أن ينظر إليها إلا أن يكون صغيرا “ترجمہ :مخنث سے مراد وہ ہے جسے عورتوں کی  خواہش نہ ہو ،یہاں پر مخنث سے ہماری مراد وہ شخص ہے،  جو برے افعال   کرنے والا مخنث  ہو ،وہ دوسرے مردوں کی طرح فاسق  ہے ،اس سے عورتوں کو پردہ کرنا لازم ہے ،البتہ ایسا مخنث جس کے اعضا  اور زبان میں  قدرتی طور پر تکسراور اس کو عورتوں کی خواہش نہ ہو اور یہ برے افعال بھی  نہ کرتا ہو،تو اس کے بارے میں بعض مشائخ نے رخصت بیان فرمائی کہ یہ عورتوں کے پاس رہ سکتا ہے (ان سے اس کا پردہ نہیں )،جیساکہ  ایک روایت میں ہے کہ ایک مخنث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوا ،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے برا کلمہ سنا، جو اس نے عمر ابن ابی سلمہ کو کہا تھا(جیساکہ یہ پوری  حدیث ترجمے کے ساتھ اوپر گزر چکی ہے)، اس(جس کے اعضا میں قدرتی تکسر اور نرمی ہو اس) سے پردہ نہ ہونے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ شخص ” التابعین  غیر اولی الْاِرْبَۃِ من الرجال “کے تحت داخل ہے ،ابلہ سے مراد جس کو یہ معلوم نہ ہو کہ عورتوں کے ساتھ کیا  کیا جاتا ہے ۔  یہاں    ہمارا کلام اسی مخنث کے بارے میں ہے،لیکن اصح اور راجح یہ ہے جو  ہم کہتے ہیں کہ ”اوالتابعین “والی آیت متشابہ آیات میں سے ہے اور اللہ کریم کا فرمان ” قل للمؤمنین یغضو ا “ محکم ہے ،لہذا ہم محکم آیت پر عمل کرتے ہوئے حکم لگاتے ہیں کہ  جو بھی مرد ہو، عورتوں کو اس کے  سامنے زینت کی جگہیں اور پوشیدہ مقام ظاہر کرنا  حلال نہیں  اور ایسے مرد کے لیے عورتوں کی طرف دیکھنا بھی جائز نہیں  ،مگر یہ کہ وہ بچے ہوں۔(المبسوط للسرخسی، جلد10،صفحہ 158،مطبوعہ  دار المعرفہ، بيروت)

   فتاوی امجدیہ میں ہے:”ہیجڑوں اور مخنثوں سے بھی عورت کو پردہ کرنا ویسا ہی ہے، جیسے اور مردوں سے کرایا جاتا ہے، فتاوی عالمگیری میں ہے:”لا ينبغي للمرأة الصالحة ان تنظر اليها المرأة الفاجرة لانها تصفها للرجال فلا تصنع جلبابها ولا خمارها عندها‘‘یعنی نیک بی بی کو چاہئے کہ بدکار عورت کو اپنی طرف نظر نہ  کرنے دے، تو جب بدکار عورت سے پردےکا حکم ہے، حالانکہ عورت کا عورت کو دیکھنا بہ نسبت مرد کے دیکھنے کے اخف ہے۔ تو یہ تو بدکار بھی ہیں اور مرد بھی ہیں، تو بہ نسبت اس(بدکار عورت)کے،ا س(ہیجڑے) میں حکم سخت ہوگا۔ چنانچہ ایک مخنث  کو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دولت خانہ سے نکال دیا تھا، اور ازواج مطہرات سے فرما دیا تھا کہ تمہارے پاس نہ آنے پائے۔۔۔ اگرچہ(یہ ہیجڑے)بظاہر نا کارہ معلوم ہوتے ہوں،انہیں بھی مکان میں آنے کی اجازت دینا دیانت و تجربہ کی کمی کی دلیل ہے۔“(فتاوی امجدیہ ،جلد 4،صفحہ95،مطبوعہ مکتبہ رضویہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم