محنت کے ساتھ سرمایہ لگانے کی شرط کا حکم

 

رقم انویسٹ  کرنے کے ساتھ کام کرنے کی شرط پر مضاربت کا حکم

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام  اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید  گارمنٹس کا کام کرتا ہے، اس کا دوست بکربھی گارمنٹس کا  کام کرنا  چاہ رہا ہے ۔ بکر  کے پاس سرمایہ ہے ،بکر زید کو یہ کہتا ہے کہ ہم دونوں تمھارے کام سے الگ گارمنٹس کا کام شروع کرتے ہیں جس میں سارا سرمایہ بکر ہی لگائے اور زید وبکر  دونوں عملا کام میں شریک ہوں گے جس میں زیادہ کام زید ہی کرے گااور نئے کام کا حساب کتاب زید کے پرانے کام سے بالکل علیحدہ ہوگا، پرانے کام کا اس نئے کام سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔زید چونکہ اس کام میں ماہر ہے لہذااپنے کام کرنے کی بنیاد پر نفع لے گا ۔

کیا اس طرح دونوں مل کر کام کرسکتے ہیں جبکہ سرمایہ صرف بکر کا ہے  اور کام زید و بکر دونوں  مل کرکریں گے ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جب سرمایہ ایک شخص کی طرف سے ہو اوردوسرے شخص کی طرف سے صرف محنت ہو ، کوئی سرمایہ نہ ہو تو شرعا اس طرح معاملہ کرنا "مضاربت "کہلاتا ہے اور عقد مضاربت کرتے وقت جب  رب المال (یعنی سرمایہ لگانے والا)بھی مضارب کے ساتھ اپنے  کام کرنے کی شرط لگادے تو اس سے عقد مضاربت فاسد ہوجاتا ہے لہذاپوچھی گئی صورت میں  زید و بکر کا اس طرح عقد مضاربت کا  معاملہ کرنا  کہ سرمایہ صرف بکر کی طرف سے ہوگا اور کام زید وبکر دونوں مل کر کریں گےتو ایسا کرنا ،ناجائزہے ا وریہ عقد مضاربت بھی فاسد ہے ۔

اس معاملہ کے دو ہی حل ہیں یا تو بکر عملا زید کے ساتھ کام نہ کرے یا پھر زید بھی کچھ سرمایہ لگا دے، بے شک ایک فیصد ہی ہو،  یوں ان دونوں کے درمیان اب مضاربت کے بجائے عقد شرکت واقع ہوگا اور اب دونوں کام کر سکتے ہیں ،نیز یہ بات یاد رہے کہ عقد شرکت اور عقد مضاربت  کچھ امور میں جداگانہ احکام رکھتے ہیں  ۔لھذا جو عقد دونوں کے درمیان طے ہوگا فقہی نتائج اور احکام بھی اسی کے مطابق مرتب ہوں گے ۔

عقد مضاربت کی تعریف سے متعلق درمختار میں ہے :

”(عقد شرکۃ فی الربح بمال من جانب )رب المال (وعمل من جانب ) المضارب“

یعنی : نفع میں شرکت کا ایسا عقد کہ رب المال کی  جانب سے مال ہو اور مضارب کی  جانب سے کام ہو ۔(در مختار ،جلد 8،صفحہ 497،دار المعرفہ بیروت)

خاتم المحققین علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

”فلو شرط رب المال ان یعمل مع المضارب لا تجوز المضاربۃ “

یعنی:اگر رب المال نے مضارب کے ساتھ کام کرنے کی شرط لگائی تو مضاربت جائز نہیں ۔(رد المحتار ،جلد 8،صفحہ 501، دار المعرفہ بیروت )

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃا للہ علیہ مضاربت کے بارے میں  فرماتے ہیں :یہ تجارت میں ایک قسم کی شرکت ہے کہ ایک جانب سے مال ہو اور ایک جانب سے کام ،مال دینے والے کو رب المال اور کام کرنے والے کو مضارب  کہتے ہیں ۔(بہار شریعت ،جلد 3،صفحہ 1،مکتبۃ المدینہ  کراچی )

مضاربت میں رب المال کے کام کرنے کی شرط ہو تو مضاربت فاسد ہوجاتی ہے ،اس سے متعلق بہار شریعت میں ہے :رب المال نے مضارب کو مال دیا اور شرط یہ کی ہے کہ مضارب کے ساتھ میں بھی کام کروں گا ، اس سے مضاربت فاسد ہوگئی ۔(بہار شریعت ،جلد 3،صفحہ 5، مکتبۃ المدینہ  کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-232

تاریخ اجراء:21ذی القعدہ 1445ھ/29مئی 2024ء