
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کےبارےمیں کہ میں ایک کمپنی میں ملازم ہوں،اور میرا کام مختلف اشیاء کی تلاش،خریداری اور پھر ان اشیاء کو کمپنی کے کسٹمرز کو فروخت کرنا ہوتا ہے،حال ہی میں مَیں نے ایک کمپنی سے ایک مخصوص پروڈکٹ خریدی، اور اس کا قبضہ حاصل کرنے کے بعد اپنی کمپنی کے کسٹمر کو فروخت کر دیا،کچھ عرصہ بعد جس کمپنی سے میں نے یہ پروڈکٹ خریدی تھی،اس کی طرف سے اطلاع دی گئی کہ آپ سے جس نمائندے نے ڈیل کی تھی،وہ اب ملازمت چھوڑ چکا ہے۔آڈٹ کے دوران معلوم ہوا کہ اس نمائندے نے آپ کو مذکورہ پروڈکٹ دس ہزار روپےزائد پر بیچ دی تھی،یعنی پروڈکٹ ایک لاکھ کی تھی اور اس نے آپ کو ایک لاکھ دس ہزارکی بیچ دی تھی لہٰذا ہم وہ اضافی رقم آپ کو واپس کرنا چاہتے ہیں۔
اب شرعی رہنمائی مطلوب ہے کہ اگر وہ زائد رقم مجھے مل جائے تو کیا اس کا حقدار میں ہوں،کیونکہ خریداری تو اب مکمل ہو چکی ہے، لہذا کیا میں وہ رقم خود رکھ سکتا ہوں،یا مجھے وہ رقم اسی کمپنی کو واپس کرنی ہوگی جس کے لیے میں نے یہ پروڈکٹ خریدی تھی؟
واضح رہے کہ میں نے یہ خریداری بطور ملازم اپنی کمپنی کی طرف سے کی تھی، اور ادائیگی بھی کمپنی ہی کے پیسوں سے کی گئی تھی۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ کا دس ہزار روپےکی رقم خود رکھنا جائز نہیں بلکہ جس کمپنی کے لئے آپ نے مذکورہ پروڈکٹ خریدی تھی اُسی کمپنی کووہ رقم واپس کرنی ہوگی۔
اس مسئلہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ کمپنی میں کام کرنے والے ملازمین(Employees) درحقیقت کمپنی کی طرف سے خرید و فروخت کے وکیل (Agent)ہوتے ہیں،اورخریداری کاوکیل جب کوئی چیز خریدے،اوربیچنے والااُس کے لئے کوئی رعایت یا قیمت میں کمی کردے،تو شرعاً یہ کمی مؤکل کے حق میں ثابت ہوتی ہے،لہٰذا پوچھی گئی صورت میں چونکہ آپ نےبطور وکیل کمپنی کے لئے ایک پروڈکٹ ایک لاکھ دس ہزار روپے میں خریدی اور اس خریداری کے بعد بیچنے والی کمپنی نے اس پروڈکٹ کی قیمت میں دس ہزار روپے کی کمی کر دی تو اب یہ کمی آپ کے لئے نہیں بلکہ اس کمپنی کے حق میں ثابت ہوگی جس کےلئے آپ نے مذکورہ پروڈکٹ خریدی تھی اور آپ کووہ رقم کمپنی کو واپس کرنی ہوگی ۔
وکیل کو جو رعایت ملتی ہے وہ مؤکل کے لئے ثابت ہوگی نہ کہ وکیل کے لئے،جیسا کہ مبسوط للسرخسی میں ہے:
’’ولو حط البائع شيئا من الثمن عن الوكيل، ثبت ذلك للآمر، لان حط بعض الثمن يلتحق باصل العقد، ويخرج قدر المحطوط من ان يكون ثمنا ‘‘
یعنی: اگر بیچنے والا وکیل کے لیے ثمن میں سے کچھ کم کر دے، تو یہ کمی حکم دینے والے (مؤکل) کے لیے شمار ہو گی، کیونکہ ثمن میں بعض حصہ کی کمی اصلِ عقد سے لاحق ہوتی ہے، اور جتنا حصہ کم کیا گیا ہو، وہ ثمن میں شمار نہیں ہوتا ۔(مبسوط للسرخسی،جلد19،صفحہ 60 ،مطبوعہ دار المعرفۃ، بیروت)
اسی طرح فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
” ان حط البائع عن الوکیل بعض الثمن فانہ یحطہ عن الموکل“
یعنی بیچنے والا اگر وکیل کو پیسے کم کردے تو وہ مؤکل سے کم ہوں گے۔(فتاوی ہندیہ،جلد 3،صفحہ 588،مطبوعہ دارالفکر ، بیروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
’’و البائع لو ابرا الوکیل عن الثمن او وھب لہ لا یظھر ذلک فی حق الموکل فکذا ھذا بخلاف حط بعض الثمن عن الوكيل فان ذلك يظهر في حق الموكل ايضا بذلك القدر لان الحط يلتحق باصل العقد ويصير كان العقد ورد على ما بقي‘‘
یعنی : اگر بائع، وکیل کو ثمن سے بری کردے یا ثمن اسےہبہ کردے تو یہ مؤکل کے حق میں ظاہر نہیں ہوگا، بالکل ایسے ہی یہ مسئلہ بھی ہے برخلاف اس صورت کے کہ جب بائع ،خریداری کے وکیل کو ثمن کے کچھ حصہ میں کمی کردے، تو یہ کمی اتنی مقدار میں مؤکل کے حق میں ظاہر ہوتی ہے، کیونکہ کمی اصل ِ عقد کا حصہ بن جاتی ہے، اور یہ ایسا ہی ہوجاتا ہے کہ گویا عقد اس بقیہ رقم پر ہی ہوا ہے۔(فتاوی ہندیہ،جلد06 ،صفحہ420،مطبوعہ دار الفکر ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے:’’وکیل نے ہزار روپے میں چیز خریدی ، بائع نے وہ ہزار وکیل کو ہبہ کردیے وکیل مؤکل سے پورے ہزار کا مطالبہ کرے گا اور اگر بائع نے پانسو ہبہ کردیے تو یہ پانسومؤکل سے ساقط ہو گئے، بقیہ پانسو کا مطالبہ ہو گا اور اگر پہلے پانسو ہبہ کردیے پھر پانسو ہبہ کئے پہلے پانسو موکل سے ساقط ہو گئے بعد والے پانسو کا وکیل مطالبہ کر سکتا ہے۔‘‘ (بہار شریعت،جلد 02 ،صفحہ 985 ،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: IEC-637
تاریخ اجراء:02محرم الحرام1447ھ/28جون2025ء