کرایہ کی شیروانی کی جیب سے پیسوں کا لفافہ مل جائے تو کیا کریں

کرایہ پر لی ہوئی شیروانی سے رقم نکل آئی تو کس کی ہو گی؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے کرایہ پر شیروانی لی تو  اس کی اندر والی جیب سے ہزار روپے  کا لفافہ نکلا، مگر اُس لفافہ پر نام وغیرہ کچھ بھی نہیں لکھا تھا کہ مالک کا پتہ چلے۔ یہ ارشاد فرمائیں کہ اس لفافہ سے متعلق  میرے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

کرایہ دار کے پاس کرایہ کی چیز امانت ہوتی ہے اور امانت کا حکم یہی ہوتا ہے کہ اُس کے مالک کو وہ چیز لوٹائی جائے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں وہ لفافہ دکاندار کی امانت ہے ، شیروانی والے کو وہ لفافہ واپس کردیا جائے۔ البتہ اگر دکاندار یہ کہے کہ میرا لفافہ نہیں ہے تو اس صورت میں یہ رقم لقطہ ہوگی۔  اس کی نظیر فقہائے کرام کا بیان کردہ وہ مسئلہ ہے کہ کسی نے مکان خریدا اس کی دیوار وغیرہ میں روپے ملے اگر بائع کہتا ہے کہ یہ روپے میرے ہیں تو اسے دے دے ورنہ وہ لقطہ ہے۔

اجیر کے پاس دفینہ نکلا تو وہ مالک کا ہوگا جیسا کہ  کتاب الاصل للامام محمد میں ہے:

”قلت: أرأيت إن كان الذي وجده قد استأجر الدار من صاحبها أو استعارها؟ قال: وإن كان فهو لصاحب الدار“

یعنی میں نے پوچھا اگر دفینہ پانے والے نے گھر کے مالک سے  اجارہ پر یا عاریت پر گھر لیا ہو تو دفینہ کس کا ہوگا؟ فرمایا کہ  اس صورت میں بھی دفینہ  گھر  کے مالک  کا ہوگا۔(الأصل للشیبانی،جلد 2، صفحه 116، ،مطبوعه بيروت)

مکان خریدااس کی دیواروغیرہ میں روپےملے،اگر بائع کہتاہے کہ یہ روپےمیرےہیں تواسے دے دے ورنہ وہ لقطہ ہے۔  جیساکہ فتح القدیر میں ہے:

”اشترى ‌دارا ‌فوجد في بعض جذوعها مالا، وإن قال البائع هو لي كان له فيرد عليه؛ لأنها وصلت إلى المشتری  منه، وإن قال: ليس لی كان كاللقطة“

یعنی گھر خریدا اور اس گھر میں بطور شہتیر  یا ستون استعمال ہونے والے درخت کے تنوں میں مال پایا  تو اگر بائع کہتا ہے کہ یہ  اس کا ہے تو اسے لوٹائے؛کیونکہ یہ مال مشتری کو بائع سے پہنچا ہے اور اگربائع  کہے کہ میرا نہیں تو لقطہ کی  مثل ہے۔(فتح القدیر، جلد6، صفحہ 282، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت)

اسی طرح عالمگیری میں ہے:

”رجل ‌اشترى ‌دارا ‌فوجد فی جذوعها ‌دراهم قال بعضهم يردها على البائع فإن لم يقبل البائع يتصدق بها وهذا أصوب كذا فی فتاوى قاضی خان “

یعنی کسی نے گھر خریدا اور اس  میں لگے درخت کے تنوں میں دراہم پائے، بعض علما فرماتے ہیں کہ بائع کو لوٹائے گا پھر اگر وہ قبول نہ کرے تو صدقہ کردے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ ایسا ہی فتاوی قاضی خان میں ہے۔(فتاوی ہندیہ، جلد 3، صفحہ 215، مطبوعہ کوئٹہ)

بہارِ شریعت میں ہے:”مکان خریدا اس کی دیوار وغیرہ میں روپے ملے اگر بائع کہتا ہے یہ میرے ہیں تو اسے دیدے ورنہ لقطہ ہے۔“(بہار شریعت، جلد 2، صفحه 483، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

لقطہ کا حکم بیان کرتے ہوئےصدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”ملتقط پر تشہیر لازم ہے یعنی بازاروں اور شارع عام اور مساجد ميں اتنے زمانہ تک اعلان کرے کہ ظنِ غالب ہو جائے کہ مالک اب تلاش نہ کرتا ہوگا۔ یہ مدت پوری ہونے کے بعد اُسے اختیار ہے کہ لقطہ کی حفاظت کرے یا کسی مسکین پر تصد ق کردے۔مسکین کو دینے کے بعد اگر مالک آگیا تو  اسے اختیار ہے کہ صدقہ کو جائز کردے یا نہ کرے ۔ اگر جائز کر دیا ثواب پائے گا اور جائز نہ کیا تو اگر وہ چیزموجود ہے اپنی چیز لے لے اور ہلاک ہوگئی ہے تو تاوان لے گا۔ یہ اختیار ہے کہ ملتقط سے تاوان لے یا مسکین سے، جس سے بھی لے گا وہ دوسرے سے رجوع نہیں کرسکتا۔“

مزید لکھتے ہے:” اُٹھانے والااگر فقیر ہے تو مدتِ مذکورہ تک اعلان کے بعد خود اپنے صَرف ميں بھی لا سکتا ہے اور مالدار ہے تو اپنے رشتہ والے فقیر کو دے سکتا ہے مثلاًاپنے باپ، ماں، شوہر، زوجہ، بالغ اولاد کو دے سکتا ہے۔“(بہار شریعت، جلد 2، صفحه 475-476، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:  IEC-632

تاریخ اجراء:22ذو القعدہ 1446ھ/19جون 2025ء