
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کمیشن ایجنٹ کے ذریعے عقد کرنے کے بعد کیا فریقین یوں کر سکتے ہیں کہ پچھلا عقد ختم کر کے کمیشن ایجنٹ کو عقد ختم کرنے کی اطلاع کر دیں اور پھر آپس میں نیا عقد کر لیں تاکہ کمیشن ایجنٹ کو کمیشن نہ دینا پڑے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اصول شرع یہ ہے کہ اگر کمیشن ایجنٹ نے اپنا کام مکمل کر دیا یعنی عقد مکمل کروا دیا، لیکن فریقین نے باہمی رضامندی سے وہ عقد ختم کر دیا، یا کسی اور وجہ سے وہ عقد ختم ہو گیا، تو بھی کمیشن ایجنٹ اپنے کمیشن کا مستحق ہوتا ہے، کیونکہ کمیشن ایجنٹ اجیر مشترک تھا اور اجیر مشترک جب کام مکمل کر دے، تو اپنی اجرت کا مستحق ہو جاتا ہے، اور بعد میں عقد ختم کرنے یا ختم ہو جانے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عقد ہوا ہی نہیں۔ لہذا فریقین عقد ختم کر لیں تب بھی کمیشن ایجنٹ کو معروف کمیشن کی ادائیگی کرنی ہو گی۔
یہ ایسے ہے جیسے کوئی شخص درزی سے کپڑا سلائی کروانے کے بعد کپڑا پھاڑ دےیا سلائیاں کھول کر کپڑے کے علیحدہ علیحدہ پیس بنادے، توپھر بھی درزی اپنی مزدوری کا مستحق رہتا ہے کہ اس نے اپنا کام مکمل کر دیا۔
فتاوی قاضی خان، فتاوی بزازیہ، فتاوی عالمگیری اور مجلۃ احکام العدلیۃ میں ہے،
و اللفظ للاول”: الدلال فی البیع اذا أخذ دلالتہ بعد البیع ثم انفسخ البیع بینھما بسبب من الأسباب سلمت لہ الدلالیة لأن الأجر عوض مقابل بالعمل وقد تم العمل۔۔۔کالخیاط اذاخاط الثوب ثم فتقہ صاحب الثوب فانہ لایرجع علی الخیاط بالاجر“
ترجمہ: جب بروکر نے عقد کروانے کے بعد اپناکمیشن لے لیا، پھر اس خریدار اور فروخت کرنے والے کے درمیان کسی سبب سے بیع فسخ ہوگئی، تو بروکر کو کمیشن دیاجائے گا، کیونکہ کمیشن عمل کے مقابل معاوضہ ہے اور بیشک عمل مکمل ہو چکا، جیسے درزی نے جب کپڑے سلائی کیے، پھر کپڑے کے مالک نے اسے ادھیڑ دیا، تو کپڑے کامالک درزی سے اجرت واپس نہیں لے گا۔(فتاوی قاضی، کتاب البیع، جلد2، صفحہ185، مطبوعہ کراچی)(فتاوی بزازیہ، کتاب الاجارات، جلد01، صفحہ434، مطبوعہ کراچی)(فتاوی عالمگیری، جلد04، صفحہ451، مطبوعہ کوئٹہ)
’’العقود الدریۃ تنقیح الفتاوی الحامدیۃ‘‘ میں ہے:
”(سئل ) في دلال سعى بين البائع والمشتري وباع البائع المبيع بنفسه والعرف أن الدلالة على البائع ثم إن المشتري رد المبيع على البائع قام البائع يطالب الدلال بالدلالة التي دفعها له فهل ليس له ذلك ؟ ( الجواب ) : نعم ذكر في الصغرى دلال باع ثوبا وأخذ الدلالة ثم استحق المبيع أو رد بعيب بقضاء أو غيره لا تسترد الدلالة وإن انفسخ البيع ؛ لأنه لم يظهر أن البيع لم يكن فلا يبطل عمله۔ عمادية“
ترجمہ: بائع اور مشتری کے درمیان کوشش کرنے والے بروکر کے بارے میں سوال کیا گیا اس حال میں کہ بائع نے مبیع خود فروخت کی اور عرف یہ ہے کہ بروکری بائع کے ذمہ ہوتی ہے، پھر اگر مشتری نے مبیع بائع پر لوٹادی، اب بائع نے بروکر کو جو کمیشن دیا تھا، اس کا بروکر سے مطالبہ کررہاہے، تو کیا بائع کا بروکر سے یہ مطالبہ کرنا درست نہیں؟ جواباً ارشاد فرمایا: جی ہاں!(اس کا یہ مطالبہ کرنا درست نہیں) صغری میں مذکور ہےکہ بروکرنے کوئی کپڑا بیچا اورکمیشن لے لیا، پھربیچی گئی چیزکے مالک ہونے کا خریدار پر کسی نے دعوی کردیا یا قاضی کے فیصلہ یا بغیر فیصلہ کے عیب کی بِناپر اسے واپس کردی گئی، تو بروکر سے کمیشن واپس نہیں لیاجاسکتا، اگرچہ سودا ختم ہوگیا ہو، کیونکہ اگرچہ خریدوفروخت کا معاہدہ ختم ہوگیا ہے، مگر اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا، کہ وہ ہواہی نہیں تھا کہ بروکر کا عمل باطل ہوجائے۔ عمادیہ۔(تنقیح الفتاوی الحامدیہ،کتاب البیوع، جلد1،صفحہ247،مطبوعہ دار المعرفۃ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: NRL-0244
تاریخ اجراء: 27شوال المکرم1446 ھ/26اپریل2025ء