دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
عرش نام کا کیا مطلب ہے؟ اور یہ نام رکھنا کیسا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
"عرش" عربی زبان کا لفظ ہے، جو کہ اردو اور فارسی میں بھی مستعمل(استعمال کیاجاتا) ہے، اس کے چند معانی یہ ہیں: "چارپائی، بادشاہوں کا تخت، چھت وغیرہ۔" مذکورہ معانی کے اعتبار سے یہ نام رکھنا درست ہے، البتہ! بہتر یہ ہے کہ نیک لوگوں مثلاً انبیائے کرام علیھم الصلوۃ والسلام، صحابہ کرام و اولیائے عظام علیھم الرضوان میں سے کسی کے نام پر بچے کا نام رکھا جائے، کہ حدیثِ پاک میں اچھوں کے نام پر نام رکھنے کی ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے، نیز امید ہے کہ اس سے ان بزرگ ہستیوں کی برکت بھی بچے کے شامل حال ہو گی۔
الغریبین فی القرآن والحدیث میں ہے
”وللعرش هنا معنيان: أحدهما: السرير والأسرة للملوك۔۔۔ والمعنى الآخر: البيت ينصب من العيدان و يظلل“
یعنی: عرش کے دو معانی ہیں: ان میں سے ایک ہے: چارپائی اور بادشاہوں کا تخت، اور دوسرا معنی ہے: لکڑی کا خیمہ، جس سے سایہ لیا جاتا ہے۔ (الغریبین فی القرآن والحدیث، جلد1، صفحہ292، مطبوعہ: السعودية)
القاموس الوحید میں ہے ”العرش: ملک، بادشاہت۔ تختِ شاہی، تختِ سلطنت۔۔۔ اصل و بنیاد۔۔۔ چھت۔ شامیانہ، خیمہ۔“ (القاموس الوحید، صفحہ1065، مطبوعہ: لاہور)
الفردوس بماثور الخطاب میں ہے ”تسموا بخياركم“ ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔ (الفردوس بماثور الخطاب، جلد2، صفحہ58، حدیث: 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔“ (بہار شریعت، جلد3، حصہ 15، صفحہ356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابو بکر عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4515
تاریخ اجراء:14جمادی الثانی1447ھ/06دسمبر2025ء