اشہر نام رکھنا نیز اسکا مطلب

بچے کا نام اشہر رکھنا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا بچے کا نام "اشہر" رکھ سکتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

"اشہر" ہاء کے زبر کے ساتھ ، اسم تفضیل کا صیغہ ہے، جس کا معنیٰ ہے: زیادہ مشہورو معروف ۔" یہ نام رکھنا جائز ودرست ہے۔

تاہم ! بہتریہ ہے کہ اولاً بیٹے کانام صرف "محمد" رکھیں کیونکہ حدیث پاک میں نام محمدرکھنے کی فضیلت اور ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے،پھر پکارنے کےلئے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام یا صحابہ کرام علیہم الرضوان یااولیا وصالحین کے ناموں میں سے کسی کے نام پرنام رکھا جائے، کہ حدیث پاک میں نیکوں کے نام پرنام رکھنے کی ترغیب ارشادفرمائی گئی ہے، اوراس سےامیدہے کہ نیک لوگوں کی برکتیں بچے کو نصیب ہوں گی۔

شرح مشکوۃ للطیبی میں ہے

ارجیٰ من اسماء التفضیل التی بنیت للمفعول،نحو قولک:فلان اشھر من فلان“ فان قیاس افعل ان لا یبنیٰ للمفعول، وقد بنیت ھذہ لہ

ترجمہ: ”ارجیٰ“ان اسمائے تفضیل میں سے ہے جو مبنی للمفعول ہیں جیسے تیرا کہنا: ”فلان اشہر من فلان“ ( فلاں آدمی فلاں سے زیادہ مشہور ہے)کہ افعل(صیغہ تفضیل) کا قیاس یہ ہے کہ وہ مبنی للمفعول نہ ہو،جبکہ اسے مبنی للمفعول بنایا گیا ہے۔(شرح مشكوة للطيبي ،جلد4،صفحہ2244،مطبوعہ:مکہ مکرمہ)

کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي وتبركا باسمي كان هو ومولوده في الجنة

ترجمہ:جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جلد 16، صفحہ 422، حدیث: 45223، مؤسسة الرسالة، بیروت)

رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے

قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن

 ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے فرمایا: جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں،یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر والاباحۃ، جلد 9، صفحہ 688، مطبوعہ کوئٹہ(

فتاوی رضویہ میں ہے ” بہتر یہ ہے کہ صرف محمد یا احمد نام رکھے اس کے ساتھ جان وغیرہ اور کوئی لفظ نہ ملائے کہ فضائل تنہا انھیں اسمائے مبارَکہ کے وارِد ہوئے ہیں۔“ (فتاوی رضویہ،جلد24،صفحہ 691،رضا فاؤنڈیشن لاھور)

الفردوس بماثور الخطاب میں ہے 

تسموا بخياركم

ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔(الفردوس بماثور الخطاب، جلد2، صفحہ58، حدیث:2328، دار الكتب العلمية، بيروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : ” انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے ، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔ (بہار شریعت، جلد3،حصہ 15، صفحہ356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4191

تاریخ اجراء: 03ربیع الاول1447ھ/28اگست2025ء