عظیم نام رکھنا کیسا اور اسکا مطلب

بچے کا نام عظیم رکھنا

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

عظیم نام رکھنا کیسا ہے؟ اگر کسی شخص کا نام عظیم رکھا ہے تو کیا اس نام کے ساتھ عبد کا لگانا ضروری ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عظیم نام رکھنا جائز ہے، اوراس کے ساتھ "عبد"لگاناضروری نہیں ہے کیونکہ یہ نام اگرچہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ہے، مگراللہ تعالی کے ساتھ خاص نہیں ہے، اور بندوں کے حق میں اس کا معنی کچھ اور مراد ہوتا ہے اور اللہ تعالی کے حق میں کچھ اور۔

درمختار میں ہے

 "و جا ز التسمیۃ بعلی و رشید و غیرھما من الاسماء المشترکۃ و یراد فی حقنا غیر ما یراد فی حق اللہ تعالی"

 ترجمہ: علی، رشید اور ان کے علاوہ اسما ئے مشترکہ کے ساتھ نام رکھنا جائز ہے اور (ان اسماء سے )جو معنی اللہ تعالیٰ کے لیے مراد لیے جاتے ہیں ہمارے حق میں اس کے علاوہ معنی مراد لیے جائیں گے۔ (الدرالمختار مع ردالمحتار، کتاب الحظر وا لاباحۃ، جلد9، صفحہ689 , 688، مطبوعہ: کوئٹہ)

فتاوٰی مصطفویہ میں ہے "بعض اسماء الٰہیہ جو اللہ عزو جل کے لیے مخصوص ہیں جیسے اللہ، قدوس، رحمن، قیوم وغیرہ، انہیں کا اطلاق غیر پرکفر ہے، ان اسماء کا نہیں، جو اس کے ساتھ مخصوص نہیں جیسے عزیز، رحیم، کریم، عظیم، علیم، حی وغیرہ۔ " (فتاوی مصطفویہ، صفحہ 90، شبیر برادرز، لاہور)

نوٹ: بیٹے کا نام رکھنے کے حوالے سے بہتر یہ ہے کہ اولاً بیٹے کا نام صرف "محمد" رکھیں، کیونکہ حدیث پاک میں نام محمد رکھنے کی فضیلت اور ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ فضیلت تنہا نام محمد رکھنے کی ہے۔ اور پھر پکارنے کے لیے ساتھ میں کوئی اچھانام مثلاً عظیم رکھ لیجئے۔

محمد نام رکھنے کی فضیلت:

کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

”من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي وتبركا باسمي كان هو ومولوده في الجنة“

 ترجمہ: جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جلد 16، صفحہ 422، حدیث: 45223، مؤسسة الرسالة، بیروت)

رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے

”قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن“

ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے فرمایا: جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں، یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر والاباحۃ، جلد 9، صفحہ 688، مطبوعہ: کوئٹہ)

فتاوی رضویہ میں ہے ”بہتر یہ ہے کہ صرف محمد یا احمد نام رکھے اس کے ساتھ جان وغیرہ اور کوئی لفظ نہ ملائے کہ فضائل تنہا انھیں اسمائے مبارَکہ کے وارِد ہوئے ہیں۔ “ (فتاوی رضویہ، جلد24، صفحہ 691، رضا فاؤنڈیشن لاھور)

الفردوس بماثور الخطاب میں ہے ”تسموا بخياركم“ ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔ (الفردوس بماثور الخطاب، جلد2، صفحہ58، حدیث: 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد فراز عطاری مدنی

فتوی نمبر:  WAT-4231

تاریخ اجراء:  23ربیع الاول1447 ھ/17ستمبر 2520 ء