بنیامین یا لقمان نام رکھنا نیز انکا مطلب

محمد بنیامین یا محمد لقمان نام رکھنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

بچے کا نام محمد بنیامین یا محمد لقمان رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

بہتر یہ ہے کہ بچے کانام صرف ”محمد“ رکھیں کیونکہ حدیث پاک میں محمد نام رکھنے کی فضیلت اورترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ فضیلت تنہا نام محمدرکھنے کی ہے۔ اور پھر پکارنے کے لیے مذکورہ دونوں میں سے کوئی ایک نام رکھ سکتے ہیں۔

”بنیامین“ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی کا نام ہےاوراس کا معنی ہے ”شیر“۔

تفسیر طبری میں ہے:

و "بنيامين" و هو بالعربية أسد

یعنی بنیامین: اس کو عربی میں اسد(شیر) کہا جاتا ہے۔(تفسیر طبری، جلد 3، صفحہ 112، موسسۃ الرسالۃ)

”لقمان“ اللہ پاک کے نیک بندے حضرت لقمان حکیم کا نام ہے جن کا ذکر اور ان کی نصیحتیں قرآن کریم میں موجود ہیں بلکہ ان کے نام پر قرآنِ کریم میں پوری سورت موجود ہے۔لہٰذا پکارنے کے لیے بنیامین یا لقمان میں سے کوئی بھی نام رکھ سکتے ہیں۔

محمد نام رکھنے کی فضیلت:

کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي وتبركا باسمي كان هو و مولوده في الجنة

ترجمہ: جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال،ج 16، ص 422، مؤسسة الرسالة، بیروت)

رد المحتار میں مذکورہ حدیث پاک کے تحت ہے:

قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن

ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے فرمایا: جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں، یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر و لاباحۃ، ج 6، ص 417،دار الفکر، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: Web-2248

تاریخ اجراء: 13شوال المکرم1446ھ/12اپریل2025ء