دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا لڑکی کا نام "لابہ" رکھ سکتے ہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
یہ فارسی زبان کا لفظ ہے، اس کے معانی ہیں: "درخواست، خواہش، دُعا، خوشامد، چاپلوسی، مذاق، طنز۔" اس میں چونکہ اچھے اور بُرے دونوں معانی پائے جاتے ہیں، لہذا یہ نام نہ رکھا جائے۔ بہتر یہ ہے کہ بچی کا نام نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات، بیٹیوں، نانیوں، دادیوں، صحابیات رضی اللہ تعالی عنہن اور نیک خواتین کے نام پر رکھا جائے کہ حدیث پاک میں اچھے لوگوں کے نام پر نام رکھنے کی ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے، نیز امید ہے کہ ان بزرگ ہستیوں کی برکت بھی بچی کے شامل حال ہو گی۔
قائد اللغات میں ہے ”لابہ (لَا-بَہْ) (ف) مذکر (1) خوشامد۔ چاپلوسی۔ تملّق (2) درخواست (3) خواہش (4) دُعا (5) طنز (6) مذاق“ (قائد اللغات، صفحہ 799، حامد اینڈ کمپنی، لاہور)
الفردوس بماثور الخطاب میں ہے
تسموا بخياركم
ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔(الفردوس بماثور الخطاب، جلد 2، صفحہ 58، حدیث: 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے ، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔“ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4465
تاریخ اجراء: 30 جمادی الاولٰی 1447ھ / 22 نومبر 2025ء