دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
بچے کا نام لا ریب رکھنا کیسا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
"لاریب" کا معنی ہے: "کوئی شک نہیں۔" یونہی اردو میں بھی یہ لفظ مستعمل ہے اور وہاں اس کا معنی ہوتا ہے: "بے شک، یقینا، تحقیق۔" الغرض یہ کوئی نام نہیں، لہذا یہ نام نہ رکھا جائے، بلکہ اس کے بجائے کوئی اسلامی بامعنی نام رکھا جائے۔ اور بہتر یہ ہے کہ اولاً بیٹے کا نام صرف "محمد" رکھیں، کیونکہ حدیث پاک میں "محمد" نام رکھنے کی فضیلت اور ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ فضیلت تنہا نام محمد رکھنے کی ہے، پھر پکارنے کے لیے انبیائےکرام علیہم الصلوۃ والسلام کے اسمائے مبارکہ یاصحابہ کرام و تابعین عظام اور بزرگانِ دین رضوان اللہ تعالی علیہھم اجمعین کے ناموں میں سے کوئی نام رکھ لیجیے کہ حدیث پاک میں اچھوں کے نام پر نام رکھنے کا حکم فرمایا گیا ہے۔
ارشادِ باری تعالی ہے:
ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ
ترجمہ کنز الایمان: وہ بلند رتبہ کتاب کوئی شک کی جگہ نہیں اس میں۔ (پارہ 1، سورۃ البقرۃ، آیت: 2)
القاموس الوحید میں ہے ”الریب: شک و شبہ، گمان، تہمت و الزام۔“ (القاموس الوحید، صفحہ 690، مطبوعہ: کراچی)
فرہنگ آصفیہ میں ہے ”لاریب: بے شک۔ بلا شبہ۔ تحقیق۔ یقینا۔“ (فرہنگ آصفیہ، جلد 4، صفحہ 867، مطبوعہ: لاہور)
بہار شریعت میں ہے ”ایسا نام رکھنا جس کا ذکر نہ قرآن مجید میں آیا ہو نہ حدیثوں میں ہو نہ مسلمانوں میں ایسا نام مستعمل ہو، اس میں علما کو اختلاف ہے بہتر یہ ہےکہ نہ رکھے۔“ (بہارِ شریعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 603، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي و تبركا باسمي كان هو و مولوده في الجنة
ترجمہ:جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جلد 16، صفحہ 422، حدیث: 45223، مؤسسة الرسالة، بیروت)
رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے
قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن
ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے فرمایا: جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں، یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر و الاباحۃ،جلد 9، صفحہ 688، مطبوعہ: کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں ہے ” بہتر یہ ہے کہ صرف محمد یا احمد نام رکھے اس کے ساتھ جان وغیرہ اور کوئی لفظ نہ ملائے کہ فضائل تنہا انھیں اسمائے مبارَکہ کے وارِد ہوئے ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 24،صفحہ 691، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
الفردوس بماثور الخطاب میں ہے
تسموا بخياركم
ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔ (الفردوس بماثور الخطاب، جلد 2، صفحہ58، حدیث: 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔“ (بہار شریعت، جلد 3،حصہ 15، صفحہ 356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد فرحان افضل عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4431
تاریخ اجراء: 20 جمادی الاولٰی 1447ھ / 12 نومبر 2025ء