
مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3724
تاریخ اجراء: 16 شوال المکرم 1446 ھ/15 اپریل 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
میرا ایک بیٹا ہے کیا میں اس کا نام "محمد عمار" رکھ سکتا ہوں، رہنمائی فرمائیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
"عَمَّار"یہ صحابی رسول کا نام ہے ،جس کا معنی ہے پختہ ایمان والا، برد بار، با وقار وغیرہ۔ لہذا عمار نام رکھنا اور اس کے ساتھ لفظ "محمد" لگانادونوں درست ہیں لہذا محمد عمار نام رکھ سکتے ہیں۔ اور اس میں بہتریہ ہے کہ اولا صرف محمدنام رکھیں اور پھر پکارنے کے لیے محمد عمار رکھ لیں کہ حدیث پاک میں محمدنام رکھنے کے فضائل بیان ہوئے ہیں اور ظاہر یہ ہے کہ یہ فضیلت تنہا نام محمد رکھنے کی ہے۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے تعارف کے متعلق تاريخ بغداد میں ہے:
’’عمار بن ياسر۔۔۔ تقدم إسلامه و رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم بمكة، و هو معدود في السابقين الأولين من المهاجرين، و ممن عذب في الله بمكة“
ترجمہ : عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ شروع کے زمانہ میں اسلام لائے جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ مکرمہ میں تھے اور حضرت عمار بن یاسر سابقین اولین صحابہ کرام میں شمار کیے جاتے ہیں ( یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے مہاجرین میں سے۔) اور یہ ان افراد میں سے ہیں جن کو مکہ مکرمہ میں اللہ تعالی کی راہ میں تکالیف دی گئیں۔)تاریخ بغداد، جلد 1، صفحہ 487، دار الغرب الإسلامي، بيروت)
عمار نام کے معنی کے متعلق المنجد میں ہے "العَمَّار: صیغہ مبالغہ، قوی الایمان، بردبار، صاحب وقار، موت تک امر و نہی پر قائم رہنے والا، اچھی تعریف والا۔" (المنجد، صفحہ 586، مطبوعہ: خزینہ علم و ادب، لاھور)
محمدنام رکھنے کی فضیلت:
کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي و تبركا باسمي كان هو و مولوده في الجنة“
ترجمہ: جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔(کنز العمال، ج 16، ص 422، مؤسسة الرسالة، بیروت)
رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے
"قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب و إسناده حسن"
ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے فرمایا:جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں،یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر و الاباحۃ، ج 6، ص 417، دار الفکر، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم